ریاست اتر پردیش کے ضلع جون پور کی تاریخ میں جن خوبصورت عمارتوں کی تعمیر کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں سے ایک 'بارہ دری' کی عمارت بھی شامل ہے۔
بعض مورّخین 'بارہ دری' عمارت کو مغل سلطنت کی مشہور عمارت تاج محل سے مشابہت والی عمارت کہتے ہیں لیکن زمانہ حال میں مذکورہ عمارت پوری طرح خستہ حال ہو جانے کی وجہ سے عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کے بجائے خوف زدہ کرنے والی عمارت ثابت ہو رہی ہے۔
بارہ دری عمارت خستہ حال اور اس کی حالت کھنڈر جیسی ہوگئی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ قرب و جوار کے لوگ اس عمارت کو بھوتوں کے محل کا درجہ دینے لگے ہیں۔
ماضی میں تاج محل کی مشابہت کا درجہ حاصل کرنے والی جون پور کی اس خوبصورت عمارت کی در و دیوار جب خود کو بھوتوں کا بنگلا ہونے کی آواز سنتی ہونگی تو عمارت کے در و دیوار سے بے ساختہ یہی آوازیں نکلتی ہوں گی کہ مجھے تعمیر کرانے والے تو آج خود تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں لیکن یہاں کی در و دیوار کو قائم رکھنے کی بجائے دور حاضر کے لوگ اسے بھوت بنگلہ کا خطاب دے کر میری بے بسی کا مذاق اڑا رہے ہیں جس کی شاید تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہوگی۔
کسی زمانے میں اس عمارت کے در و دیوار دن رات گلزار ہوا کرتے تھے اور سینکڑوں کلومیٹر دور تک اس کی شہرت تھی تو وہیں 'شرقی سلطنت' میں بادشاہوں کی آرامگاہ ہونے کی وجہ سے عام انسان اس عمارت کے دیدار کو ترستا تھا لیکن وقت اور حالات نے اس خوبصورت عمارت سے سب کچھ چھین لیا اور زمانے نے اس کا نام 'بھوت بنگلہ' رکھ دیا۔
بارہ دری عمارت کی تاریخی حیثیت کے بارے میں موّرخین لکھتے ہیں کہ 'شرقی دور' کے آخر اور مغل دور کے ابتداء کی تاریخی عمارت ہے اس عمارت میں تین جانب سے عظیم الشان دروازہ بنے ہوئے ہیں۔ مجموعی دروازوں کی تعداد بارہ ہونے کی وجہ سے 'بارہ دری' یعنی بارہ دروازوں والی عمارت کہا جاتا ہے۔
سینکڑوں سال گزر جانے کے بعد آج یہ عمارت اپنا وجود بچانے کے لیے ترس رہی ہے اگر حکومت اور آثار قدیمہ کی اس جانب خصوصی نظر پڑ جاتی اور وہ اس عمارت کو اس کی اصل شکل میں واپس لے آتے ہیں تو شاید تاریخی شہر کی تاریخی عمارت کو بچانے کے لیے بڑا قدم ثابت ہوگا ورنہ عدم توجہی کی وجہ سے یہ خوبصورت عمارت کبھی بھی زمیں دوز ہو سکتی ہے۔
مذکورہ عمارت کے تئیں بڑا المیہ یہ ہے کہ اس عمارت کو 'بھوت بنگلہ' کہا جانے لگا ہے عام لوگ بھلے ہی یہاں جانے سے ڈرتے ہیں لیکن چور اُچکوں اور شرابیوں نے اس کو اپنا مسکن بنا لیا ہے اور یہاں پر واقع قلیچ خاں کی مزار کا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔