اردو

urdu

ETV Bharat / state

جونپور: تاریخی مقبرہ کیوں بھوت بنگلہ بن گیا؟

جونپور میں مغل دور میں تعمیر کی گئی مختلف عمارتیں آج بھی شہر کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتی ہے وہیں قلیچ خاں کا مقبرہ آثار قدیمہ کی عدم توجہی کی وجہ سے کبھی بھی زمیں دوز ہو سکتا۔

jaunpur ka taj mahel
jaunpur ka taj mahel

By

Published : Sep 7, 2020, 5:59 PM IST

ریاست اتر پردیش کے ضلع جون پور کی تاریخ میں جن خوبصورت عمارتوں کی تعمیر کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں سے ایک 'بارہ دری' کی عمارت بھی شامل ہے۔

آثار قدیمہ کی عدم توجہی کا شکار جونپور کا تاج محل، ویڈیو

بعض مورّخین 'بارہ دری' عمارت کو مغل سلطنت کی مشہور عمارت تاج محل سے مشابہت والی عمارت کہتے ہیں لیکن زمانہ حال میں مذکورہ عمارت پوری طرح خستہ حال ہو جانے کی وجہ سے عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کے بجائے خوف زدہ کرنے والی عمارت ثابت ہو رہی ہے۔

بارہ دری عمارت خستہ حال اور اس کی حالت کھنڈر جیسی ہوگئی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ قرب و جوار کے لوگ اس عمارت کو بھوتوں کے محل کا درجہ دینے لگے ہیں۔

ماضی میں تاج محل کی مشابہت کا درجہ حاصل کرنے والی جون پور کی اس خوبصورت عمارت کی در و دیوار جب خود کو بھوتوں کا بنگلا ہونے کی آواز سنتی ہونگی تو عمارت کے در و دیوار سے بے ساختہ یہی آوازیں نکلتی ہوں گی کہ مجھے تعمیر کرانے والے تو آج خود تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں لیکن یہاں کی در و دیوار کو قائم رکھنے کی بجائے دور حاضر کے لوگ اسے بھوت بنگلہ کا خطاب دے کر میری بے بسی کا مذاق اڑا رہے ہیں جس کی شاید تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہوگی۔

کسی زمانے میں اس عمارت کے در و دیوار دن رات گلزار ہوا کرتے تھے اور سینکڑوں کلومیٹر دور تک اس کی شہرت تھی تو وہیں 'شرقی سلطنت' میں بادشاہوں کی آرامگاہ ہونے کی وجہ سے عام انسان اس عمارت کے دیدار کو ترستا تھا لیکن وقت اور حالات نے اس خوبصورت عمارت سے سب کچھ چھین لیا اور زمانے نے اس کا نام 'بھوت بنگلہ' رکھ دیا۔

بارہ دری عمارت کی تاریخی حیثیت کے بارے میں موّرخین لکھتے ہیں کہ 'شرقی دور' کے آخر اور مغل دور کے ابتداء کی تاریخی عمارت ہے اس عمارت میں تین جانب سے عظیم الشان دروازہ بنے ہوئے ہیں۔ مجموعی دروازوں کی تعداد بارہ ہونے کی وجہ سے 'بارہ دری' یعنی بارہ دروازوں والی عمارت کہا جاتا ہے۔

سینکڑوں سال گزر جانے کے بعد آج یہ عمارت اپنا وجود بچانے کے لیے ترس رہی ہے اگر حکومت اور آثار قدیمہ کی اس جانب خصوصی نظر پڑ جاتی اور وہ اس عمارت کو اس کی اصل شکل میں واپس لے آتے ہیں تو شاید تاریخی شہر کی تاریخی عمارت کو بچانے کے لیے بڑا قدم ثابت ہوگا ورنہ عدم توجہی کی وجہ سے یہ خوبصورت عمارت کبھی بھی زمیں دوز ہو سکتی ہے۔

مذکورہ عمارت کے تئیں بڑا المیہ یہ ہے کہ اس عمارت کو 'بھوت بنگلہ' کہا جانے لگا ہے عام لوگ بھلے ہی یہاں جانے سے ڈرتے ہیں لیکن چور اُچکوں اور شرابیوں نے اس کو اپنا مسکن بنا لیا ہے اور یہاں پر واقع قلیچ خاں کی مزار کا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ یہاں عام طور پر شراب کی بوتلیں پڑی دکھائی دیتی ہیں جس کی وجہ سے عام لوگ آسانی سے 'بھوت بنگلہ' تسلیم کر لیتے ہیں۔

اس مقبرے میں تاج محل کی عکاسی نظر آتی ہے تو وہیں بعض موّرخین کے مطابق اپنا مقبرہ تعمیر کرانے سے قبل ہی قلیچ خاں اس دار فانی سے کوچ کر گئے تھے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے تاریخ داں عرفان جون پوری نے بتایا کہ 'قلیچ خاں کا جو مقبرہ ہے اسے بارہ دری بھی کہا جاتا ہے، شاہجہاں نے اپنے دور حکومت کے آخری دنوں میں قلیچ خاں کو جون پور کا حاکم بنا کر بھیجا تھا۔

قلیچ خان نے جون پور آنے کے بعد دریائے گومتی کے کنارے رہنے کے لیے ایک عالیشان محل تعمیر کروایا اور محل کے قریب ہی 'بارہ دری' کی خونصورت عمارت بھی تعمیر کروائی جس کی بنیاد دریائے گومتی میں ہے اور زمینی سطح سے تقریباً 20 فٹ اونچائی پر ہے چونکہ مقبرے میں بارہ دروازے ہیں اس وجہ سے عوام میں یہ 'بارہ دری' کے نام سے مشہور ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس مقبرے کے حوالے سے ایک بات مشہور ہے کہ 'جب مقبرے کی بنیاد کھودی جا رہی تھی تو ایک پتھر کا گنبد ملا تھا جو تالے سے بند تھا اور اس کے تالے کا وزن تقریباً 37 کلو تھا۔

قلیچ خان نے جب تالا کھولا تو اس میں ایک عجیب منظر دکھائی دیا کہ ایک بزرگ شخص مغرب کی جانب رخ کئے ہوئے بیٹھے نظر آئے، شور وغل کی وجہ سے وہ بزرگ گھبرا گئے اور انہوں نے وہاں موجود لوگوں سے کچھ سوالات کئے، اس کے بعد لوگوں نے انہیں باہر نکالا تو انہوں نے بطریق اسلام نماز ادا کی اور 6 ماہ تک پھر کسی سے بات نہ کی اس کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔

عرفان جونپوری نے مزید بتایا کہ 'یہ واقعہ کتابوں میں لکھا تو ضرور ہے لیکن اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے بعد میں قلیچ خاں کے نام پر دریائے گومتی کے کنارے ایک گاؤں آباد ہوا جسے 'قلیچ آباد' کہا جاتا ہے۔

دور حاضر میں اپنا وجود بچانے کو ترس رہی اس عمارت کی جانب اگر توجہ دے دی جائے تو یقیناً آج بھی تاج محل کی طرح اسے بھی دیکھنے کے لیے سیاحوں کا جم غفیر آسکتا ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ کسی کی بھی نظر اس عمارت کی جانب نہیں پہنچ رہی ہے اور خوبصورت عمارت آج اپنی بدحالی پر آنسو بہا رہی ہے۔

اپنی قسمت پر آنسو بہاتی یہ عمارت چیخ چیخ کر وقت کے حکمرانوں سے خود کا وجود بچانے کے لیے صدائیں لگا رہی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور آثار قدیمہ کے افسران تک اس بے بس عمارت کی صدائیں پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتی ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details