جونپور:- شیراز ہند جونپور شعر و شاعری کا مرکز رہا ہے ہر دور میں شاعروں نے اپنی شاعری کے ذریعے سے جونپور کو ایک شناخت دی ہے اور ساتھ ہی اردو زبان و ادب کی ترقی اور اس کی بقا میں اہم کردار ادا کرکے اپنا نام تاریخ کے سنہرے اوراق میں درج کروایا ہے جنہیں آج بھی شعر و شاعری سے شغف رکھنے والے ان کے کارناموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں انہیں میں ایک نام حفیظ جونپوری کا ہے۔ جو جونپور میں 1865 میں پیدا ہوئے۔ جن کا اصلی نام حافظ محمد علی اور تخلص حفیظ تھا۔
حفیظ جونپوری کے تعلق سے ماسٹر طفیل احمد انصاری نے کافی کچھ لکھا ہے ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور اکثر حفیظ جونپوری کے اوپر مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ طفیل انصاری کو ماہر حفیظیات کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ای ٹی وی بھارت نے طفیل انصاری سے حفیظ جونپوری کے تعلق سے خصوصی گفتگو کی ہے۔ ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے ماسٹر طفیل انصاری نے بتایا کہ حفیظ جونپوری سے میرا تعلق بہت قدیم ہے طالب علمی کے زمانے میں حفیظ جونپوری کو پڑھتا تھا اور ان سے متعلق مواد کو بھی جمع کیا تھا۔
طفیل انصاری نے کہا کہ پھر 2006 میں حفیظ جونپور پر ایک مبسوط کتاب لکھی جسے اردو حلقوں میں کافی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور جس کے شاندار رسم اجراء میں اردو دنیا کی عظیم ترین شخصیات نے شرکت کی تھی، انہوں نے کہا کہ حفیظ جونپور کے اشعار کافی مشہور ہیں مگر افسوس کہ آج ان کے اشعار لوگ پڑھتے ہیں اور انہیں خبر تک نہیں کہ یہ حفیظ جونپوری کے اشعار ہے۔ حفیظ جونپوری اپنے دور میں کافی مشہور تھے اس وقت امیر و داغ کی طوطی بولتی تھی اور علی گڑھ تحریک بھی شروع ہوچکی تھی۔ اس دور میں حفیظ نے اپنی جگہ بنائی تھی یہ بڑی بات ہے۔
طفیل انصاری نے بتایا کہ حفیظ جونپوری حسن و عشق کے آدمی تھے رند خرابات تھے یہ ان کا جوانی کا مشغلہ تھا۔ اخیر عمر میں حفیظ جونپوری مولانا اشرف علی تھانوی کے تقریر سے متاثر ہوکر ان کے ہاتھ پر اپنے شاگرد ماغ جونپوری کے ساتھ تھانہ بھون جاکر بیعت کرلی اس کے بعد ایک رسالہ نکالا۔ جو دیوبند سے شائع ہوا، جس میں ان کی کئی غزلیں شائع ہوئیں جس کو پڑھ کر تسلیم و رضا کی کیفیت دیکھی جا سکتی ہے۔
انہوں نے حفیظ جونپوری کے مشہور زمانہ شعر