جونپور: ریاست اتر پردیش کا ضلع جونپور اپنے علم و ادب کے بنیاد پر ایک تاریخی اور منفرد مقام کا حامل ہے جس کی مٹی نے سینکڑوں شاعروں، ادیبوں کو جنم دیا جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر جونپور کو متعارف کروایا اور اپنی علمی قابلیت کا لوہا منوایا لیکن موجودہ دور میں شیراز ہند کے نام سے عالمی شہرت یافتہ شہر جونپور تاریخ کے اوراق تک ہی محدود ہو گیا۔ امتداد زمانہ کی وجہ سے آہستہ آہستہ علم کا مرکز کہا جانے والا یہ خطہ اپنی بقا و زندگی کی صدائیں لگاتا نظر آرہا ہے۔ ایسی بدحالی کے دور میں عرفان جونپوری گزرے ہوئے لوگوں کی تصانیف و تصاویر، قلمی نسخے، خطوط کی ایک وارث کی طرح حفاظت کر رہے ہیں اور خشک شدہ گل میں آبیاری کا کام انجام دے رہے ہیں۔ عرفان جونپوری کو اتر پردیش اردو اکادمی نے گذشتہ سال ایک لاکھ کے انعام ادب برائے اطفال سے نواز چکی ہے۔ ان کی تصنیف و ترتیب کردہ نصف درجن کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور مزید ان کی چار کتابیں زیر تصنیف ہیں۔ حال ہی دنوں میں ان کے نئی تصنیف 'مضامینِ عرفان' عام پر آئی ہے جس کا رسم اجرا بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی کے ہاتھوں عمل میں آیا ہے۔ اسی تعلق سے ای ٹی وی بھارت اردو نے عرفان جونپوری سے خصوصی گفتگو کی ہے۔
عرفان جونپوری نے بتایا کہ مضامین عرفان میں مطبوعہ و غیر مطبوعہ تحقیقی مضامین شامل ہیں۔ اس کتاب میں بعض تحقیقی باتیں بھی سامنے آئی ہیں جو اب تک منظر عام سے غائب تھیں۔ غالب دہلوی کے ایک گمنام شاگرد زیدی جونپوری ہیں جن کا تذکرہ اس سے پہلے تلامذہ غالب میں کسی بھی نے نہیں کیا ہے، اس کتاب میں ان کا ذکر موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت اردو صحافت کا جشن منایا جا رہا ہے جب کہ اردو صحافت پر پہلی کتاب جونپور کے مصنف کامل بے سے نے 1940 میں لکھا ہے یہ ان کا دعویٰ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سر شاہ سلیمان علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے اور ایک اچھے قانون داں بھی تھے مگر وہ ایک بہترین ادیب بھی تھے اس پر کم کام ہوا۔ ان کی تین کتابیں میرے پاس موجود ہیں۔ اس کتاب میں ان کا تعارف ہے۔ اس کے ساتھ شرقی دور کے شاعروں کی اردو و ہندی ادب میں خدمات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے علاوہ میرے جو بھی تبصرے و مضامین شائع ہوتے رہے ہیں، ان کا بھی احاطہ مضامین عرفان میں کیا گیا ہے۔