محمد علی جوہر یونیورسٹی میں 'آتم نربھر بھارت حقیقت یا وہم' کے عنوان پر دوروزہ قومی ویبینار کا آج دوسرا دن تھا۔ اس پروگرام کا آغاز سیشن کی پہلی مقررہ ڈاکٹر ریکھا جگن ناتھن کے خطاب سے ہوا۔ جن کا تعلق کرناٹک سے ہے۔ان کے کئی تحقیقی مقالہ بین الاقوامی مجلات میں شائع ہو چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ آج ہم جس معاشی بحران سے گزر رہے ہیں۔ماضی میں بھی ہم اس سے زیادہ بحران سے گزر چکے ہیں۔اور اگرہم اپنی غذائیت کی پیداوار پربالخصوص توجہ دیں اور دوسرے ممالک سے اشیاء خریدنے کے بجائے اپنے ملک میں اشیاء کی پیداوار پر زیادہ منحصر ہوں۔تو ہم اس معاشی بحران سے جلد از جلد باہر آ سکتے ہیں اور خود کفیل بھارت کی تشکیل میں تعاؤن کرسکتے ہیں ۔
بعد ازاں دوسرے مقرر ڈاکٹر جیش این دیسائی نے خود کفیل بھارت مہم پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ جب ہم آتم نربھر بھارت کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ درآمدات پر انحصار میں کمی اور درآمدات پر غیر ملکی کرنسی کو بچا ئیں۔ اور ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک کی تیار شدہ اشیاء کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔اور اسی کے ذریعہ اپنے ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ہمارا ہر فیصلہ کا اثر ہمارے ملک کی معیشت پر پڑے گا۔انہوں نے مزید بتایا کہ ہر سیکٹر کو چاہیے کہ وہ اپنے مخصوص شعبہ میں بھارت کوخود کفیل بنانے کے لیے زبردست کام کرے۔
اس کے بعد پروگرام کے تیسرے اور آخری مقرر پروفیسر پرمیشورا راؤ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خود کفیل بھارت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم دنیا سے بالکل کٹ جائیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جدید تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کریں اور بھارت ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔اور حکومت کی طرف سے جو معاشی پیکج دئیے گئے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے ہنر کا استعمال کرتے ہوئے دوبارہ سے اپنے کاموں میں لگ جائیں اسی طرح ہم سب کو مل کر ملک کی ترقی کے لیے کام کرنا ہے۔ بھارت کوصنعتی انقلاب میں اپنا جوہر دکھانا ہے۔شعبہ زراعت بھارت کی ترقی کا سب سے اہم عنصر ہے۔