معروف ادیب ڈاکٹر تابش مہدی سے خصوصی گفتگو جونپور: مشہور و معروف ادیب و شاعر ڈاکٹر تابش مہدی ریاست اتر پردیش کے پرتاپ گڑھ کے رہنے والے ہیں فی الحال ملک کی راجدھانی دہلی میں مقیم ہیں، ان کی اب تک مختلف موضوعات میں کل 54 کتابیں منظر عام پر آکر داد و تحسین حاصل کر رہی ہیں، وہ غزل اور نظم گوئی بھی کرتے ہیں مگر انہیں نعت گوئی میں کافی شہرت حاصل ہے، اپنے مخصوص لب و لہجہ اور ترنم کی وجہ سے سامعین سے داد و تحسین حاصل کرتے ہیں ایک کتاب کی رسم اجراء کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی جونپور شرکت کرنے پہونچے جہاں ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے ڈاکٹر تابش مہدی سے خصوصی گفتگو کی ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شیراز ہند جونپور سے میرا قلبی اور ذہنی لگاؤ ہے، جامعۃ الشرق بڑی مسجد سے کچھ سال تعلیم حاصل کی ہے اور علامہ شفیق جونپوری میرے استاد کے استاد تھے، اس وجہ سے بھی لگاؤ ہے اور آج ماسٹر طفیل انصاری کی کتاب شاخ طوبی کی تقریب رونمائی میں شرکت کرنے کی غرض سے حاضری ہوئی ہے، انہوں نے اپنے تعلق سے بتاتے ہوئے کہا کہ میں پرتاپ گڑھ میں 1951 میں پیدا ہوا، پھر پرتاپ گڑھ، جونپور، الہ آباد سے تعلیم حاصل کرکے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، ادب و صحافت، تنقید و شاعری ہی میرا مشغلہ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حمد و نعت کو ایک رسم کے طور پر دیکھا گیا ہے مگر پڑوسی ملک میں اس صنف کو کافی اہمیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے مگر ادھر 30 سالوں سے اس صنف کو فروغ ملا ہے۔انہوں نے کہا کہ 1970 میں مشاعروں میں جونپور سے شرکت شروع ہوئی، پہلے کے شعراء کا کلام سامعین پسند کرتے تھے اور آج کل شعراء سامعین کی سطح پر آکر کلام پیش کرتے ہیں جو شاعری کے لیے مفید نہیں ہے، انہوں نے بتایا کہ ملک سے لیکر بیرونِ ممالک تک مشاعروں کے سلسلے سے شرکت ہوئی ہے اپنے ملک میں سامعین شعراء کو اپنی سطح پر لاکر کلام سننا چاہتے ہیں جبکہ بیرون ملک کے سامعین شاعر کے سطح پر ہی کلام سننا پسند کرتے ہیں، یہ فرق دیکھنے کو ملا ہے۔
مزید پڑھیں: مشترکہ تہذیب ہماری رگوں میں دوڑتی ہے، ڈاکٹر شعیب نظام
ڈاکٹر تابش مہدی نے کہا کہ جونپور ماضی میں علم و ادب تہذیب و ثقافت روحانیت کا مرکز رہا ہے مگر موجودہ وقت میں یہ کہا جا سکتا ہے جونپور سب کبھی بانجھ نہیں ہوا ہے، آج بھی کچھ ایسی شخصیت موجود ہیں جن پر تحقیق کی جا سکتی ہے، انہوں نے کہا کہ اردو کا مستقبل اس وجہ سے تابناک ہے کہ اردو کا دائرہ ہندوستان، پاکستان سے آگے بڑھ گیا ہے اور مسلسل بڑھتا رہے گا بس اردو زبان کو انہیں لوگوں سے خطرہ ہے جو اردو کی روٹی کھاتے ہیں۔