اردو

urdu

ETV Bharat / state

Meet Acid Attack Survivor: تیزاب حملہ متاثرہ سنگیتا کی کہانی، 'چہرہ جھلسا، جینے کا حوصلہ نہیں'

وارانسی کے 'دی اورنج کیفے' کی مالک و تیزاب حملہ متاثرہ سنگیتا نے کہا کہ 'جب ریستوران سے اچھی آمدنی ہوگی تو دیگر متاثرین کی مدد کی جائے گی تاکہ انہیں انصاف دلایا جاسکے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں معاشرے میں کچھ کرکے دکھانا ہے۔ معاشرے کو بتانا ہو گا کہ تیزاب حملے میں صرف ہمارے چہرے جھلسے ہیں، جینے کے حوصلے نہیں۔' The Orange Café in Varanasi

تیزاب متاثرہ سنگیتا کی کہانی
تیزاب متاثرہ سنگیتا کی کہانی

By

Published : Mar 8, 2022, 1:04 PM IST

اترپردیش کے ضلع وارانسی کے دُرگا کنڈ میں واقع 'دی اورنج کیفے' ایک ایسا ریسٹورنٹ ہے، جس میں تیزاب متاثرہ سنگیتا، بداما لکشمی اور شانو جیسی لڑکیاں نہ صرف کام کرتی ہیں بلکہ وہ اس ریستوران کی مالکن بھی ہیں۔ Acid attack survivors running The Orange Café in Varanasi

تیزاب متاثرہ سنگیتا نے بتایا کہ 'تیزاب حملے کی شکار تین دیگر خواتین کے ساتھ مل کر ہم نے ایک ریسٹورنٹ شہر کے درگا کنڈ علاقے میں 'دی اورنج کیفے' نام سے کھولا ہے۔ وہ خود کفیل بننے کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔ ہماری اس کوشش میں سماجی تنظیم 'ایکشن ایڈ' اور 'ریڈ بریگیڈ' کا بہت بڑا تعاون ہے۔ The Orange Café Restaurant in Durgakund

تیزاب متاثرہ سنگیتا کی کہانی

سنگیتا نے بتایا کہ 'تیزاب سے میرا چہرہ خراب تو ہوا ، لیکن میرا ذہن پہلے بھی خوبصورت تھا اور آج بھی ہے۔ مجھے اپنے چہرہ کو چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں؟ چہرہ تو وہ چھپائے جس نے ہم پر تیزاب ڈالنے کی گھناؤنی حرکت کی۔ ہمیں اپنا چہرہ بالکل چھپانا نہیں ہے، بلکہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ معاشرے میں کچھ کر دکھانا ہے۔' The Orange café by acid attack survivors

یہ ریسٹورنٹ سال 2019 میں کھلا تھا۔ سماجی تنظیم ایکشن ایڈ کے پروگرام آفیسر محمد علی فراز کا اسے کھولنے میں بڑا تعاون شامل رہا۔

علی فراز کا کہنا ہے کہ 'ہماری یہ کوشش تیزاب متاثرہ بچیوں کی زندگی میں رنگ بھرنے کے ساتھ ساتھ انہیں خود انحصار بنانے کی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان بیٹیوں کو ریسٹورنٹ کا مالک بنا رکھا ہے۔ ریسٹورنٹ کا کرایہ و دیگر اخراجات برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ ہم انہیں مناسب رقم بھی فراہم کراتے ہیں۔ Ali Faraz on The Orange Cafe

دی اورنج کیفے

'ایکشن ایڈ' کے ریجنل منیجر خالد چودھری کا کہنا ہے کہ 'اس ریسٹورنٹ کو شروع کرنے میں سماجی تنظیم ریڈ بریگیڈ سمیت دیگر سماجی تنظیموں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ سب کی کوششوں سے بنارس اور اس کے آس پاس کے اضلاع کی تیزاب متاثرہ لڑکیوں سے بات کرکے انہیں اس تجویز کے بارے میں بتایا۔ جس کے بعد انہیں ایک نئی زندگی جینے کا موقع ملا اور انہوں نے یہاں آکر اپنا ریسٹورنٹ شروع کیا۔'

دی اورنج کیفے کو چلانے والی سنگیتا کہتی ہیں کہ ریستوران ابھی شروع ہوا تھا کہ کووڈ کی وجہ سے لاک ڈاؤن لگ گیا اور اسے بند کرنا پڑا۔ پھر ہم نے ایکشن ایڈ کی مدد سے ریسٹورنٹ میں روزانہ کھانا تیار کرکے ضرورت مندوں میں تقسیم کرنا شروع کیا۔ اس طرح پہلے لاک ڈاؤن میں ہم نے 16 ہزار سے زائد فوڈ پیکٹ ضرورت مندوں میں تقسیم کیے۔

انہوں نے بتایا کہ 'ہماری یہ خدمت دوسرے لاک ڈاؤن میں بھی جاری رہی۔ کووِڈ کی تیسری لہر کے اثر کے ساتھ مستحقین کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، ہم ریسٹورنٹ کی کامیابی کے لیے پر امید ہیں۔'

سنگیتا بتاتی ہیں کہ اس ریستوران نے نہ صرف میری، بلکہ ان تمام تیزاب متاثرہ لڑکیوں کی زندگیاں بدل دی جو یہاں سے وابسطہ ہیں۔ Acid Attack Survivors Story

یہ بھی پڑھیں: International Women's Day 2022: روزانہ سولہ کلومیٹر پیدل چل کر قبائلی بچوں کو پڑھاتی ہیں مِنی

انہون نے بتایا کہ 'ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہم لوگوں سے مدد کی امید رکھتے تھے، لیکن اس ریسٹورنٹ کی وجہ سے ہم نے کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران ضرورت مندوں کی مدد کی۔ Acid attack survivors turn Corona warriors

سنگیتا کہتی ہیں کہ 'جب ریستوران سے آمدنی بڑھے گی تو ہم اپنی جیسی لڑکیوں کی مدد کریں گے، تاکہ ہم سب کو انصاف مل سکے۔ ہمیں معاشرے میں کچھ کر کے دکھانا ہے۔ معاشرے کو بتانا ہو گا کہ تیزاب حملے میں صرف ہمارے چہرے جھلسے ہیں، حوصلے نہیں۔ اب اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر وہ مقام حاصل کریں گے جس پر سب کو فخر ہونا چاہیے۔'

ABOUT THE AUTHOR

...view details