انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر ماسٹر محمد سلیمان نے کہا کہ بابری مسجد پر نظرثانی کی درخواست ایک دلت رہنما پھول چندر کریل کے ذریعے سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے جس پر سپریم کورٹ میں طویل بحث کے بعد اسے تسلیم کر لیا گیا ہے۔ یہ دلت رہنما انڈین نیشنل لیگ کے قومی نائب صدر ہیں اور لکھنؤ کے رہنے والے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر جو ان کے رول ماڈل ہیں، ان کے بنائے ہوئے آئین کی اس فیصلے سے خلاف ورزی ہوئی ہے اس لیے سپریم کورٹ کو اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
انڈین نیشنل لیگ نے ریویو پٹیشن داخل کیا دراصل نظرثانی کی درخواست انڈین نیشنل لیگ کی حمایت سے پھول چندر کریل نے داخل کی ہے۔ پھول چندر کریل کا کہنا ہے کہ بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازع کا فیصلہ جو سپریم کورٹ نے دیا ہے وہ بھارت کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب سپریم کورٹ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ سنہ 1949 تک وہاں نماز پڑھی گئی، یہ بھی مانا ہے کہ بابری مسجد کے اندر جو مورتیاں رکھی گئیں وہ مجرمانہ طریقے سے رکھی گئیں اور سنہ 1992 کو جو مسجد کا ڈھانچہ غیر قانونی طریقے سے توڑا گیا وہ بھی مجرمانہ فعل ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ پر کبھی کوئی مندر نہیں تھا اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ یہ بھی تسلیم کیا کہ کسی مندر کو توڑ کر بابری مسجد نہیں بنائی گئی ہے۔ ان سب شواہد ہونے کے باوجود سپریم کورٹ نے زمین ہندوؤں کو دے دی جو دستور ہند کے خلاف فیصلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مجرمانہ فعل کرنے والے لوگوں کو یہ زمین دے دی۔ عدالت عظمی کو اس پر نظر ثانی کرنا چاہیے کہ اس سے کہاں پر غلطی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نظرثانی کی درخواست داخل کرنا ہمارا آئینی حق ہے جو آئین نے ہمیں دیا ہے۔
اس نظرثانی کی درخواست کو پھول چندر کریل نے دو وکلا کے ذریعے سے داخل کیا ہے جس میں ایک وکیل کبیر دکشت ہیں جو لکھنؤ کے رہنے والے ہیں، دوسرے وکیل منوج سی نائر ہیں جو جنوبی بھارت کے کیرالا کے کوچین سے تعلق رکھتے ہیں، دونوں ہی وکلا نے 9 تاریخ کو ریویو پٹیشن پر سپریم کورٹ میں طویل بحث کی تھی جس پر عدالت عظمیٰ نے ان کی درخواست کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ دونوں وکلا اب اس مقدمے پر بحث کریں گے۔
عدالت عظمیٰ میں ریویو پٹیشن کو داخل کرنے سے پہلے پھول چند کریل نے انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر ماسٹر محمد سلیمان سے رائے مشورہ کیا تھا۔