دور حاضر میں لوگ انگریزی دواؤں کے علاوہ اب متبادل 'یونانی' دواؤں کی طرف رخ کررہے ہیں کیونکہ اب ان کا اعتبار اس جانب ہونے لگا ہے۔
ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ یونانی دواؤں کے علاوہ طبی ایلوپیتھی سمیت دیگر دوائیں سستی بھی پڑتا ہے، جس سے غریب آسانی سے علاج کروا سکتیں ہیں۔
آج ہی کے روز مشہور و معروف طبیب حکیم اجمل خاں کی پیدائش ہوئی تھی، جسے 'جشن یوم یونانی' کے طور پر منایا جارہا ہے۔
لکھنو کے 'سٹیٹ تکمیل الطب کالج اینڈ ہاسپیٹل' میں 11 فروری سے 17 فروری تک 'جشن یوم یونانی' کے موقع پر مختلف پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔
آج اس کا افتتاح کالج کے پرنسپل پروفیسر جمال اختر، پروفیسر نفاست علی انصاری، ڈاکٹر محمد خالد اور دیگر اساتذہ و طلبا کی موجودگی میں کیا گیا، جس میں دوسرے کالج کے طلبا و اساتذہ بھی موجود رہے۔
حیدرآباد سے تشریف لائی ڈاکٹر ستیہ نے طلبا کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یونانی ڈاکٹرز پریکٹس سے کیوں پیچھے ہٹ رہے ہیں؟ آخر اس کی کیا وجوہات ہیں؟
انہوں نے کہا کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح ایلو پیتھک ڈاکٹرز کو تمام سہولت فراہم ہوتی ہیں اور ان کے لیے بڑی کمپنیز دروازے کھول دیتی ہے، اور ساتھ ہی حکومت بھی ان کے ساتھ کھڑی ہوئی نظر آتی ہے، جبکہ اسکے برعکس یونانی ڈاکٹرز کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ کے پاس کوئی مریض آتا ہے، تو آپ انہیں بھلے ہی انگریزی دوائی لکھیں، لیکن کم از کم ایک دوا یونانی بھی ضرور لکھیں تاکہ لوگ اس کے لیے بیدار ہوسکیں اور اس کے فائدے سے محروم نہ رہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ سٹیٹ تکمیل الطب کالج اینڈ ہاسپٹل کے پرنسپل پروفیسر جمال اختر نے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے یونانی دواؤں کے لیے بڑی خدمات انجام دی ہیں، جسے ہم نے کہیں نہ کہیں فراموش کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عوام کو بیدار کریں کیوں کہ انگریزی دوائی بہت مہنگی آتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام اب انگریزی دواؤں کے بجائے یونانی دواؤں کو ترجیح دے رہے ہیں۔