ہماری پوری کوشش رہتی ہے کہ مساجد محفوظ رہیں اور عالی شان بنے، لیکن ایک اہم پہلو کی جانب ہماری نگاہیں نہیں اٹھ رہی ہیں۔ ہماری مساجد کے امام جن کے پیچھے ہم نماز ادا کرتے ہیں ان کے حالات کو جاننا بھی ہماری اخلاقی مذہبی اور سماجی ذمہ داری ہے۔
ائمہ مؤذنین کی تنخواہ بہ مشکل پانچ سے چھ ہزار روپیے فی ماہ ہوتی ہے جو آج کے مہنگائی کے دور میں بنیادی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ائمہ و مؤذنین اپنی بنیادی ضرورتوں کو کیسے پر کرتے ہونگے۔
یہی وجہ ہے مسلم والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے جدید اور دنیاوی تعلیم حاصل کر کے بینک میں ملازم، مینیجر کی کرسی یا ایک کامیاب کاروباری بنے لیکن شاید ہی کچھ لوگ چاہتے ہونگے کہ ان کے بچے بینک کی ملازمت یا مینیجر کی کرسی پر نہ بیٹھ کر مسجد کے مصلے پر آجائیں۔
مدرسہ العلوم علی گڑھ کے پرنسپل ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی نےخصوصی گفتگو میں بتایا کہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ائمہ و مؤذنین کی تنخواہ مختصر ہوتی ہے۔ جبکہ آج کے وقت میں ایک مزدور 8 گھنٹے کی نوکری کرتا ہے اور جس کی آمدنی دس ہزار روپے ہوتی ہے لیکن 24 گھنٹے اپنی خدمات انجام دینے کے باوجود بھی آج ملک میں امام کی تنخواہ بمشکل پانچ سے چھ ہزار یا بہت زیادہ ہوئی تو 10 ہزار روپیہ ہے جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امام اپنے بچوں کی تعلیم کا خرچا اور بنیادی ضرورتوں کو کیسے پر کرتا ہوگا۔