ریاست اترپردیش کے بنارس میں منی گنگا گھاٹ پر روزانہ سیکڑوں میتوں کو لکڑیوں سے جلایا جاتا ہے جس سے نہ صرف فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے بلکہ دریائے گنگا بھی تیزی سے آلودہ ہو رہی ہے۔
فضائی آلودگی پر کام کرنے والے سدھیر جیسوال نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک مردہ کو جلانے میں تقریباً ایک درخت کی لکڑی ختم ہوجاتی ہے جس کا مجموعی خرچ 3 ہزار سے لے کر 5 پانچ ہزار سے زائد تک ہے۔
میتوں کو لکڑی سے جلانے میں کس حد تک فضائی آلودگی بڑھتی؟ انہوں نے کہا کہ اس سے ایک طرف جہاں نکلنے والا کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا کو شدید نقصان پہنچارہا ہے تو وہیں جنگلوں اور درختوں کے کٹان میں بھی شدید اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران گنگا ندی صاف نظر آرہی تھی لیکن مُردوں کو گنگا کے کنارے لکڑیوں سے جلانے اور اس سے نکلنے والی آلودگی گنگا کو بھی شدید طور پر آلودہ کر ر ہی ہیں۔
سدھیر جیسوال بتاتے ہیں کہ مُردوں کی آخری رسومات ادا کرنے کا ایک دوسرا طریقہ بھی بنارس کے ہریش چند گھاٹ و منی کنکا گھاٹ پر موجود ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ بجلی اور بائیو گیس کے ذریعے مردوں کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے مشین لگائی گئی ہے جس میں کم رقم بھی خرچ ہوتی ہے لیکن اس جانب لوگوں کے رجحانات کم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بائیو گیس اور الیکٹرک کے ذریعے بھی مردوں کی آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں لیکن مذہبی رسم و رواج کی وجہ سے لوگوں کے ذہن و فکر نہیں بدل ر ہے ہیں اور لکڑیوں سے بدستور مردوں کو جلا رہے ہیں جس سے فضا کو سخت نقصان ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لوگوں کے ذہن و فکر کو بدلنے میں مسلسل سماجی کارکنان کام کر رہے ہیں لیکن مذہبی روایات کی بنیاد پر الیکٹرک اور بائیو گیس کے ذریعے مردوں کی آخری رسومات ادا کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔