اردو

urdu

By

Published : Dec 6, 2020, 7:35 PM IST

ETV Bharat / state

بابری مسجد سے گیان واپی مسجد معاملہ کتنا مختلف ہے؟

ایودھیا میں مسلمانوں کی آبادی کم تھی جبکہ بنارس میں تقریبا 25 سے 30 فیصد مسلمان آبادی ہے، خاص کر اس علاقے میں جہاں پر مسجد ہے، جس کی وجہ سے مسجد کو کسی بھی قسم کا خطرہ نہیں ہوسکتا۔

How different is the Gyan Vapi Masjid from Babri Masjid?
بابری مسجد سے گیان واپی مسجد معاملہ کتنا مختلف ہے؟

آج ہی کے دن یعنی 6 دسمبر 1992 کو ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں واقع بابری مسجد کے انہدام کا سانحہ پیش آیا تھا تبھی سے بھارتی مسلمان اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر یاد کرتے ہیں جبکہ اکثریت طبقہ کی سخت گیر ہندو تنظیمیں اس دن کو یوم فتح کے طور پر مناتی ہیں۔

بابری مسجد سے گیان واپی مسجد معاملہ کتنا مختلف ہے؟

بابری مسجد-رام مندر معاملے کا گزشتہ برس عدالت عظمیٰ نے فیصلہ سنایا جس کو پورے ملک نے قبول کیا۔ اس کے بعد متھرا اور کاشی کا معاملہ سامنے آیا۔

بنارس میں واقع گیان واپی مسجد اور کاشی وشو ناتھ مندر کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس کے باوجود سخت ہندو تنظیموں کی جانب سے آئے دن متناع بیان سامنے آتے رہتے ہیں، جس سے نہ صرف اقلیتی طبقہ میں تشویش ہے، انہیں کسی بھی وقت ناگوار حالات پیش آنے کا خدشہ رہتا ہے۔

اس سلسلے میں گیان واپی مسجد فریق کی جانب سے انجمن مساجد انتظامیہ کے جوائنٹ سکریٹری ایس ایم یسین نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کی۔

انہوں نے بتایا کہ بابری مسجد رام مندر معاملے سے گیان واپی مسجد-کاشی وشوناتھ مندر کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بابری مسجد میں اندازے کے مطابق 1949 سے نماز ادا نہیں کی جاتی تھی اور ہندو عقیدت مندوں کے لئے پوجا کرنے کا انتظام نہیں تھا، لیکن گیان واپی مسجد میں برسوں سے پنج وقتہ نماز کے ساتھ عید الفطر، عید الاضحی، الوداع کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کی جا رہی ہے اور ہندو بھائی بھی مندر میں پوجا کر رہے ہیں، اس اعتبار سے بابری مسجد رام مندر کا معاملہ کاشی وشو ناتھ مندر اور گیان واپی مسجد کے معاملے سے بلکل الگ ہے۔

گیان واپی مسجد فریق کی جانب سے انجمن مساجد انتظامیہ کے جوائنٹ سکریٹری ایس ایم یسین نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کی

انہوں نے مزید بتایا کہ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ایودھیا میں مسلمانوں کی آبادی کم تھی جبکہ بنارس میں تقریبا 25 سے 30 فیصد مسلمان آبادی ہے، خاص کر اس علاقے میں جہاں پر مسجد ہے، جس کی وجہ سے مسجد کو کسی بھی قسم کا خطرہ نہیں ہوسکتا۔

تیسری وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حفاظتی انتظامات کے اعتبار سے بھی ہم مضبوط ہیں، اس طرح سے گیان واپی مسجد کی حفاظت میں تین طرح کے سکیورٹی دستے تعینات ہیں۔ اندرونی علاقہ میں سی آر پی ایف کے جوان تعینات ہیں گیٹ پر پولیس اور سیول پولیس تعینات ہے، اس کے باہر پولیس اور پی ایس سی کے جوان تعینات ہیں۔ اس وجہ سے بھی مسجد کو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانونی طور پر بھی ہم مضبوط ہیں، سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے ایک فیصلہ دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ آزادی سے قبل جو مسجد تھی وہ مسجد رہے گی اور جو مندر ہے وہ مندر رہے گی کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں کی جائے گی، یعنی جس مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہ آزادی سے قبل جہاں تھی وہ اسی حالت میں رہے گی۔ بابری مسجد کا معاملہ الگ ہے۔ اس فیصلے کو پلیس آف ورشپ ایکٹ بنایا گیا، اسے قانونی حیثیت حاصل ہے۔ تو ظاہر ہے کہ آزادی سے قبل یہ مسجد تھی اور ہمیشہ یہ مسجد ہی رہے گی۔

مزید پڑھیے: بابری مسجد کیس: 1528 تا 2017 کے درمیان کیا ہوا؟

انہوں نے بتایا کہ بنارس میں گنگا جمنی تہذیب عوام میں بہت رائج ہیں، اس کی کئی مثالیں ہیں جو گیان واپی مسجد اور کاشی وشو ناتھ کے علاقے میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ علاقائی لوگوں میں کسی بھی قسم کی کوئی نفرت، بغض اور عداوت موجود نہیں ہے۔ کچھ سیاسی جماعتیں جو اپنے مفاد میں اس معاملے کو طول دے رہی ہیں۔

انہوں نے 30 نومبر کو ہوئے وزیراعظم نریندرمودی کے دورے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ وزیراعظم نے للیتا گھاٹ سے مندر میں آنے والے راستہ کا آغاز بھی کردیا ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details