ایک زمانہ تھا جب بنارس میں اردو ادب کی کتابیں وافر مقدار میں موجود تھی شہر کے اندر متعدد کتاب گھر تھے اور دو مشہور و معروف لائبریری جہاں اردو ادب کی نایاب و نادر کتابیں موجود تھیں۔ جہاں سے نہ صرف طلبہ و طالبات فائدہ اٹھاتے تھے بلکہ دور دراز علاقوں سے پروفیسر بھی ان لائبریریوں کی کتابوں سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ 80 کی دہائی میں بنارس میں اردو زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ لوگوں میں اردو ادب سے دلچسپی ختم ہوتی چلی گئی جس کی وجہ سے اب یہ لائبریریاں بھی زوال کی آخری منزل پر ہیں۔
بنارس کی اردو لائبریریز و کتاب گھر کیسے غائب ہوگئے؟ - بنارس ہندو یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر نسیم
بنارس ہندو یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر نسیم بتاتے ہیں کہ بنارس میں 80 کی دہائی میں مدنپورہ علاقے میں ایک سعدیہ لائبریری تھی اور ایک پبلک اسلامیہ لائبریری تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ ان لائبریری کی عمارت خستہ ہوگئی۔ اب گذشتہ کئی برسوں سے ان لائبریری کے تئیں عوام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ کتابیں دھول کھا رہی ہیں۔
پروفیسر نسیم بتاتے ہیں کہ اردو کے معروف محقق مرحوم حنیف نقوی نے سعدیہ لائبریری سے متعدد کتابوں کو طلب کیا اور اردو ادب کے حوالے سے تحقیقی مضامین بھی لکھے۔
پروفیسر نسیم کے مطابق یہ وہ زمانہ تھا جب بنارس کے لوگوں میں اردو ادب حوالے سے باذوق افراد کی کثرت تھی جن کی وجہ سے نہ صرف یہ لائبریریاں بارونق ہوا کرتی تھیں بلکہ نادر و نایاب کتابیں بھی موجود ہوتی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ سعدیہ لائبریری کی عمارت خستہ ہوئی اور اوپر کی منزل منہدم ہوگئی۔ اب گزشتہ کئی برسوں سے یہ لائبریری بند ہوچکی ہے اور اس کی کتابیں کہاں ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔
وہیں پبلک اسلامیہ لائبریری کے بارے میں لوگ بتاتے ہیں کہ پہلے یہ لائبریری پہلی منزل پر تھی اب اسے چوتھے منزل پر منتقل کر دیا گیا ہے جہاں پر ضعیف و بزرگ اور اردو کے باذوق افراد وہاں تک نہیں پہنچ پاتے ہیں لہذا یہ لائبریری بھی دن گن رہی ہے۔
پروفیسر نسیم بتاتے ہیں کہ اب کتاب لکھنے کا رواج عام ہوچکا ہے لیکن کتابوں کی مطالعہ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کی کمی ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب نہ بازار میں بڑی مقدار میں کتاب گھر ہیں اور نہ ہی لائبریریوں کی جانب کسی کی توجہ ہے بلکہ جو موجود تھی اب وہی رفتہ رفتہ ختم ہو رہی ہیں۔