علی گڑھ:بانی درسگاہ سرسید احمد خان نے خود اے ایم یو کا لوگو 1875 میں بنایا تھا، جس میں اب تک تین مرتبہ تبدیلی کی گئی ہے۔ آخری مرتبہ 1951 میں لوگو کے دائرے میں قرآنی آیت "علم الانسان مالم يعلم" کو شامل کیا گیا تھا جو آج کل یونیورسٹی کیمپس میں کم ہی جگہ دیکھائی دیتا ہے۔ یقیناً کسی بھی تعلیمی ادارے کا پرچم یا اس کا لوگو/مونوگرام اس کی شان اور پہچان ہوتا ہے، جس کو وہ بڑی شان و شوکت، عزت و احترام کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ اگر بات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لوگو کی جائے تو یہ تاریخی اور ثقافتی تسلسل کی علامت ہے جو تاریخ کا معنوی حصہ ہے۔
اے ایم یو لوگو کی تاریخی اہمیت جس میں شامل چاند، کتاب، 'علم الانسان مالم يعلم' وکٹوریہ تاج اور کھجور کے درخت سے متعلق ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں سر سید اسکالر ڈاکٹر محمد مختار عالم نے بتایا کہ اس کو پہلی مرتبہ 1875 میں سر سید احمد خان نے بنایا، جب مدرسۃ العلوم کی بنیاد رکھی گئی تھی، جس کے دو سال بعد جب ہی 1977 میں محمڈن اینگلو اوریئنٹل (ایم اے او) کالج کی بنیاد رکھی گئی تو لوگو میں تبدیلی کرکے محمڈن اینگلو اوریئنٹل (ایم اے او) کالج شامل کیا گیا اور پھر 1920 میں جب کالج کو اے ایم یو کا درجہ حاصل ہوا تو لوگو میں تیسری مرتبہ تبدیلی کرکے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شامل کیا گیا اور آخری مرتبہ تبدیلی ملک کی آزادی کے بعد 1951 میں کی گئی تھی، جب اے ایم یو کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین تھے۔ اس وقت کے لوگو میں موجود ملکہ وکٹوریہ کے تاج کو ہٹا کر کتاب اور دائرے میں قرآنی آیت علم الانسان مالم يعلم' کو شامل کیا گیا تھا۔
ماہرِ سر سید ڈاکٹر راحت ابرار نے خصوصی گفتگو میں لوگو میں موجود کھجور کے درخت کی تاریخ اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ سر سید نے مدینہ منورہ سے کھجور کے درخت لاکر یونیورسٹی میں لگائے اور یونیورسٹی کے لوگو میں شامل بھی کیا کیونکہ کھجور کا درخت اسلامی تشخص کی علامت ہے اور یہ کئی سالوں تک قائم رہتا ہے۔ سر سید کا کہنا تھا جو آج ہم نے تعلیم کا پودا لگایا ہے وہ بھی کھجور کے درخت کی طرح ہزاروں سال تک قایم رہے۔