مقامی عوام کے مطابق حضرت شاہ پیر کی کرامت یہ ہے کہ مزار پر گنبد کی تعمیر نہیں ہوئی ہے، اس کے باوجود بارش کا پانی مزار پر نہیں گرتا ہے۔
شاہ پیر مقبرے کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ نے اس کے تحفظ کی ذمہ داری لی ہے لیکن آج بھی یہ مقبرہ خستہ حالت میں ہے۔
مقبرے کی عمارت فن تعمیر کا بہترین نمونہ ہے، اس کی دیواروں میں سنگ مرمر لگایا گیا ہے اور دیوار میں پتھر بہت ہی خوبصورت انداز میں تراشے گئے ہیں جو آج بھی عمارت کی خوبصورتی کی جھلک پیش کرتے ہیں لیکن دیکھ بھال نہیں ہونے کی وجہ سے اس کی دیواریں خستہ ہو چکی ہیں۔
تاریخ نویسوں کے مطابق سنہ 1633 میں مغل بادشاہ جہانگیر کے دور حکومت میں مذہبی رہنما شاہ پیر رحمتہ اللہ علیہ کے خوبصورت مقبرے کی سنگ بنیاد رکھی گئی۔
مورخین کے مطابق مغل بادشاہ جہانگیر کی بیوی نور جہاں نے حضرت شاہ پیرؒ کے پاس جا کر فریاد کی کہ میرے شوہر میری جانب توجہ نہیں دیتے ہیں۔
اس وقت حضرت پیر نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ دیا کہ 'پیا کہ خدمت کر پیا تیرا ہو' اس کے بعد بادشاہ جہانگیر بیگم نورجہاں سے محبت کرنے لگے۔