علی گڑھ: چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی سات ججوں کی آئینی بنچ نے منگل (9 جنوری) کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی اقلیتی حیثیت سے متعلق معاملات کی سماعت شروع کی۔ سی جے آئی، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے بی پارڈی والا، جسٹس دیپانکر دتہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش چند شرما کی بنچ الہ آباد ہائی کورٹ کے 2006 کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی کی سماعت کر رہی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اگرچہ اے ایم یو کی بنیاد ایک اقلیتی برادری نے رکھی تھی، اس کا کبھی انتظام نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کے زیر انتظام ہونے کا دعویٰ کیا گیا اور اس طرح اسے اقلیتی ادارہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ سینئر ایڈووکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون نے اے ایم یو پر دلائل شروع کیے۔
یہ بھی پڑھیں:
اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے دیا جائے گا، سپریم کورٹ میں سماعت
ادارے کے تاریخی آثار کو دیکھنا ضروری
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) نے اپنے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے کی سماعت کے پہلے دن ( یعنی 9 جنوری) کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ اقلیتی حیثیت کا اندازہ لگانے کے لیے ادارے کے تاریخی آثار کو دیکھنا ضروری ہے، کسی تعلیمی ادارے کو اقلیتی درجہ حاصل کرنے سے محض اس لیے نہیں روکا جاتا کہ وہ ایک قانون کے ذریعہ ریگولیٹ ہوتا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) 1920 پارلیمانی ایکٹ کے مطابق ایک اقلیتی ادارہ ہے جس کو مسلمانوں مسلمانوں کے لیے قائم کیا تھا یہ الگ بات ہے کہ اس نے اپنے دروازے دیگر مذاہب کے طلباء و طالبات کے لیے کھولے ہوئے تھے۔
آج وہی اے ایم یو اپنے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے کی لڑائی حکومت سے سپریم کورٹ میں لڑ رہا ہے، سپریم کورٹ کی 7 ججوں کی آئینی بنچ جس کی سربراہی چیف جسٹس آف انڈیا، ڈی وائی چندرچوڑ نے کی۔ سات ججوں کی بنچ جس میں سی جے آئی اور جسٹس سنجیو کھنہ، سوریا کانت، جے بی پاردی والا، دیپانکر دتا، منوج مشرا اور ایس سی شرما شامل ہیں۔ یونیورسٹی نے کہا کہ تعلیمی اداروں کا قیام اور ان کا انتظام کرنے کا حق آئین کے مطابق ہے، سپریم کورٹ کو بتایا کہ کسی بھی ادارے کی اقلیتی حیثیت کا اندازہ لگانے کے لیے ادارے کے تاریخی آثار کو دیکھنا ضروری ہے، کسی تعلیمی ادارے کو اقلیتی درجہ حاصل کرنے سے محض اس لیے نہیں روکا جاتا کہ وہ ایک قانون کے ذریعے ریگولیٹ ہوتا ہے۔
آرٹیکل 30 کے مطابق اقلیتی ادارہ
سماعت کے دوران بنچ نے پوچھا کہ کیا قانون (اے ایم یو ایکٹ 1920) کے ذریعہ قائم کی گئی یونیورسٹی کو آرٹیکل 30 کے مطابق اقلیتی ادارہ مانا جا سکتا ہے۔ بنچ کو بتاتے ہوئے اے ایم یو کے ایڈوکیٹ راجیو دھون نے کہا کہ عزیز باشا بمقابلہ UOI میں فیصلے کے باوجود UGC کے تحت بڑی تعداد میں ڈیمڈ یونیورسٹیوں کو اقلیتی ادارے قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "اس لیے ہمیں اسے آئینی عینک سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور لبرل تعلیم کو مذہبی تعلیم کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔"
آئین کا آرٹیکل 30 اقلیتوں کو تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق دیتا ہے۔ آرٹیکل 30 (1) اقلیتوں کو مذہب یا زبان کی بنیاد پر اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق فراہم کرتا ہے۔ نتیجتاً، آرٹیکل 30(2) تعلیمی اداروں کو امداد دینے میں، ریاست کو مذہب یا زبان کی بنیاد پر ایسے کسی اقلیتی ادارے کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے سے منع کرتا ہے۔ قانون کے سوالات آرٹیکل 30 کے تحت کسی تعلیمی ادارے کو اقلیتی درجہ دینے کے پیرامیٹرز سے متعلق ہیں، اور کیا پارلیمانی قانون کے تحت قائم کردہ مرکزی فنڈ سے چلنے والی یونیورسٹی کو اقلیتی ادارے کے طور پر نامزد کیا جا سکتا ہے۔ سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت والی بنچ نے فروری 2019 میں یہ معاملہ سات ججوں کے پاس بھیج دیا تھا۔
یاد رہے کہ اے ایم یو کو سپریم کورٹ نے 1968 میں ایس عزیز باشا بمقابلہ یونین آف انڈیا کے معاملے میں ایک مرکزی یونیورسٹی قرار دیا تھا۔ مذکورہ معاملے میں، عدالت نے یہ بھی کہا کہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 29 اور 30 کے تحت کسی مرکزی یونیورسٹی کو اقلیت کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم، بعد میں اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم کرکے اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کو بحال کردیا گیا۔ لیکن بعد میں اسے الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس نے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ایک طرف رکھ دیا تھا جس کی وجہ سے اے ایم یو نے سپریم کورٹ میں فوری اپیل کی تھی،بعد میں اس وقت کی کانگریس حکومت نے اس معاملہ میں سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کی تھی لیکن
دیگر مذاہب کے طلبہ و طالبات کے لیے یونیورسٹی کے دروازے کھلے ہیں
2016 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت نے اس معاملے میں اپنی اپیل واپس لے لی تھی۔ یاد رہے کہ اے ایم یو کے اقلیتی کردار کی بحالی کے لیے اے ایم یو کی جانب سے ایڈووکیٹ راجیو دھون اور اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی جانب سے کپیل سبل سپریم کورٹ میں کیس لڑ رہے ہیں۔ جہاں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ سر سید نے مدرسہ، کالج اور مستقبل کی یونیورسٹی صرف مسلمانوں کے لیے بنائی تھی یہ بات الگ ہے دیگر مذاہب کے طلبہ و طالبات کے لیے یونیورسٹی کے دروازے کھلے رکھے۔ 1920 میں دور حکومت نے یہ تسلیم کیا تھا کہ یہ اقلیتی ادارہ ہے جو مسلمانوں نے مسلمانوں کے لیے قائم کیا ہے اسی لیے یونیورسٹی کی اعلی گورننگ باڈی 'اے ایم یو کورٹ' کے تمام رکن اس وقت مسلمان تھے اور اس کے رکن مسلمان ہی ہوں گے، مسلم طلبہ کو دینی تعلیم دی جائے گی، یونیورسٹی کا وائس چانسلر بھی مسلمان ہی ہوگا، یونیورسٹی کا نظام بھی مسلمانوں کے ہی ہاتھ میں ہوگا۔ پارلیمنٹ میں اس وقت کے وائس رائے نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ آج میں مسلمانوں کے حوالے ان کی خواہشات کے مطابق تعلیمی ادارہ ان کے سپرد کر رہا ہوں۔
ہندوستان کی ازادی کے بعد 1951 میں جب مولانا آزاد وزیر تعلیم بنے تو انہوں نے ایک پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا جس میں اے ایم یو کورٹ کے ممبر صرف مسلمان ہوں گے کو ختم کر دیا یعنی مسلم اقلیتی ادارے کی بنیادی چیزوں کو ختم کردیا گیا جس کے بعد 1967 کو یہ فیصلہ کیا گیا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارا نہیں ہے جس کے خلاف تحریکیں چلی اور یہ ایک سیاسی مسئلہ بن گیا۔
1981 میں اندرا گاندھی کے دور میں پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ اے ایم یو ایک اقلیتی ادارہ ہے جس کو مسلمانوں نے مسلمانوں کے لیے قائم کیا تھا اور یہ ایک نہیں بلکہ ملک کے مسلمانوں کی تعلیم اور ثقافت کی ذمہ داری بھی اے ایم یو پر عائد ہوتی ہے۔ 2004 میں بی جے پی کی حکومت میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ پورے ہندوستان میں ایم ڈی اور ایم ایس کی داخلوں میں 50 فیصد انٹرنل طلبہ کا کوٹا اور 50 فیصد ایکسٹرنل طلبہ کا کوٹا ہونا چاہیے اس وقت اے ایم یو کے وائس چانسلر نسیم احمد تھے انھوں نے اس کو تسلیم کرنے سے اس لیے انکار کر دیا کیونکہ اے ایم یو ایک اقلیتی ادارہ ہے، کیونکہ اے ایم یو نے حکومت کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا تھا اس لیے لوگ کورٹ چلے گئے، 2004 سے اے ایم یو اب تک دو کیس ہار چکا ہے جس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنے اقلیتی کردار کو بحال کروانے کے لیے سپریم کورٹ میں کیس لڑرہی ہے۔