لکھنو:کہا جاتا ہے کہ ریاست اتر پردیش کے علی گنج میں ہنو مان مندر کی تعمیر نواب شجاع الدولہ کی اہلیہ عالیہ بیگم نے1792 سے 1802 کے درمیان تعمیر کروائی تھی۔مندر کی گنبد پر ایک کلش اور چاند نصب کروایا تھا جو آج بھی موجود ہے۔
عالیہ بیگم اولاد سے محروم تھیں جس کے بعد وہ افسردہ رہتی تھیں۔ اسی دوران ان کے باغبان نے مشورہ دیا کہ اسلام باڑی کی زیارت کر آئیں۔ بیگم نے زیارت کی اور ان کو ہنومان کی مورتی خواب میں آئی جب اس مقام کی کھدائی کی گئی تو وہاں ہنومان کا مجسمہ نکلا جسے سجا کر ہاتھی پر لیکر امام باڑے کی جانب لایا جاتا تھا لیکن ہاتھی گومتی ندی کے اس باہر نہیں آرہا تھا جب لوگوں نے بتایا کہ وہ لکشمن کا علاقہ ہے ہاتھی اس طرف نہیں جائے تو بیگم نے وہیں مندر تعمیر کرایا۔
نوابی خاندان سے تعلق رکھنے والے نواب مسعود عبداللہ بتاتے ہیں کہ بیگم کو مسلسل خواب آتا رہا کہ لکھنو میں ایک مجسمہ ہے جو پریشانی کے عالم میں ہے۔ لہذا انہوں نے فیض آباد سے کئی ہاتھی تیار کر کے بھیجی جو علی گنج کے اسی علاقے میں بیٹھ جاتے تھے جہاں پر آج مندر تعمیر ہے۔ جب ہاتھیوں کا جھنڈ اس مقام سے آگے نہیں بڑھ رہا تھا تو وہ وزراء نے فیصلہ کیا کہ یہی وہ مقام ہے جہاں مجسمہ ہے۔ اس کی کھدائی کی گئی اور وہاں پر ایک چھوٹی سی مورتی نکلی اور اسی جگہ پر عالیہ بیگم نے ہنومان مندر تعمیر کروائی۔