لکھنو: مرکزی حج کمیٹی کے سابق ممبر حافظ نوشاد احمد اعظمی نے مرکزی وزیر اقلیتی فلاح وبہبود وحج اسمرتی ایرانی کو ایک تفصیلی خط بھیجا ہے جس کی کاپی وزارت خارجہ کے جوائنٹ سکریٹری اور وزارت شہری ہوا بازی کے جوائنٹ سکریٹری ،اقلیتی فلاح وبہبود وحج وزارت کے جوائن سکریٹری سعودی عرب ریاض میں سفارتکار اور کونسل جنرل آف انڈیا جدہ اور چیف ایکزیٹیو حج کمیٹی آف انڈیا ممبئی کو بھیجی ہےاور پریس کو بھی بھیجا ہے۔
حافظ نوشاد احمد اعظمی نے خط میں لکھا ہے کہ مرکزی وزیر آپ کی ہی وزارت میں اپنے ہی قانون حج ایکٹ 2002 کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں ایکٹ میں صاف صاف لکھاہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا اور اسٹیٹ حج کمیٹی کی چار ماہ پہلے پوری کمیٹی بن کر تیار رہنی چاہیے لیکن جون 2019 کے بعد حج کمیٹی آف انڈیا کی مدت ختم ہوئی اور وزارت نے چھ چھ ماہ کی مدت بڑھائی اور عدالت کے دخل کے بعد بیشتر اسٹیٹ میں حج کمیٹیاں بنی ہیں اور حج کمیٹی آف انڈیا آج تک ایکٹ 2002 کے تحت نہیں بنائی گئی اپریل 2022 میں حج کمیٹی آف انڈیا جو 12 رکنی بنائی گئی اس میں بھی ایک ممبر کی مفتی کوٹہ میں ممبر شپ رکھی گئی اور دوسرے راجیہ سبھا ممبر جن کی مدت 3 ماہ بعد ختم ہونی تھی اور ختم ہوگئی اس طرح قانون کا مذاق اڑا کر حج کمیٹی کی ادھوری تشکیل کردی گئی جبکہ 19 ممبران کو ووٹ دینے کا حق ہے سب سے پہلے ضروری ہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا کی تشکیل حج ایکٹ 2002 کے تحت پوری 23 رکنی کمیٹی بناکر ایک ساتھ اس کا انتخاب کیاجائے۔ Hafiz Naushad write a letter To Minority Minister
اعظمی نے خط میں لکھا ہے کہ آل انڈیا حج کانفرنس سے میڈیا کو دور رکھا گیا جبکہ اس کانفرنس کی طرف پورے ملک کے مسلمانوں کی نگاہیں لگی رہتی ہیں کہ حج کانفرنس میں ملک کے عازمین حج کے لیے کچھ نئی سوغات ملے گی وزیر موصوفہ نے جواشارہ دیے ہیں وہ کچھ اخبارات میں خبریں شائع ہوئی ہیں کہ ڈیپوٹیشن پر ڈاکٹر خادم الحجاج اے .ایچ. او .وغیرہ جاتے ہیں شاید آپ کی رائے ہیں کہ انھیں بند کردیا جائے۔ مکہ شہر پوری طرح پہاڑ پر بسا ہوا ہے اور ملک سے جانے والے حاجیوں کی ایوریج عمر 65 سال سے زیادہ ہوتی ہے اور وہاں کا موسم بھی یہاں سے بہت مختلف ہوتا ہے اور عازمین مکہ پہنچنے کے بعد فوراً انھیں ضروری ارکان پیدل چل کر کافی محنت اور مشقت سے ادا کرنے پڑتے ہیں ایسے میں 90 فیصد عازمین کا شروعاتی دور میں بیمار پڑنا لازمی ہوتا ہے اور مکہ میں 20 سے 40 ہسپتال قائم ہوتے ہیں جس کے ایک ایک ہسپتال میں کئی کئی ڈاکٹر اور عملہ ہوتا ہے اور وہ حاجیوں کا ضروری علاج کرتے ہیں اور مدینہ میں بھی یہی نظام قائم ہوتا ہے اس لیے یہاں حاجیوں کا فوری طور پر علاج کیا جاتا ہے اور اگر یہ نظام ختم کردیا گیا تو سعودی ہسپتال میں جاکر جو وہاں بہت دور دور ہوتا ہے کیسے علاج کرائیں گے جبکہ وہاں کی زبان بھی انھیں نہیں آتی اس لیے اس کی تعداد بڑھائی جائے ۔ Hafiz Naushad Haj Act Violation
خط میں لکھا ہے کہ خادم الحجاج اور اے.ایچ. او جو وہاں بھیجے جاتے ہیں کاؤنسلیٹ وہاں اپنے طور پر ڈیوٹی لگاتاہے اور مختلف بلڈنگوں میں خادم الحجاج کی ڈیوٹی ہوتی ہے اور چوں کہ یہاں کے حاجی سعودی زبان سے واقف نہیں ہوتے ہیں اس لیے ان کی وہ پوری طرح رہنمائی کرتے ہیں اور وہاں حاجیوں کے گم ہونے کی شکایت بھی بہت زیادہ رہتی ہے ایسے میں یہ افسران انھیں ڈھونڈ کر کمرہ میں پہنچانے میں مددگار ہوتے ہیں اس لیے یہ سہولت بھی برقرار رہنی چاہیے۔ عازمین حج کو انٹر نیشنل مسافر کی طرح ڈالر دینے کے بارے میں بھی بات آئی ہے لیکن وہ نظام کسی بھی طرح حج کمیٹی کے حاجیوں کے لیے مناسب نہیں ہوگا کیوں کہ 75 فیصد آبادی ہماری گاؤں میں ہے اور حاجی اسی گاؤں سے جاتے ہیں اس طرح پہلے یہ نظام تھا کہ جدہ میں ایئرپورٹ پر انھیں یہ ریال دیے جاتے تھے جس میں بہت شکایتیں ملتی تھیں کہ وہاں لائن لگاکر بھی کچھ حاجی نہیں لے پاتے تھے اور کچھ حاجی ادھر ادھر ہوجاتے تھے اس طرح کی شکایت ملنےکے بعد حج کمیٹی آف انڈیا نے غورخوض کے بعد یہ فیصلہ لیا کہ اپنے ملک ہی میں انھیں ایئرپورٹ پر یہ ریال دیا جائے اور یہ نظام پوری طرح اچھا ہے اگر اس سلسلے میں ڈالر کا نظام قائم کیا گیا تو حاجی گاؤں سے لے کر مکہ شہر تک ڈالر کو کیش کرانے میں اور ڈالر کو حاصل کرنے میں پریشان ہوں گےلہٰذا یہ نظام کسی بھی طرح بند نہ کیاجائے۔اور ۲۱۰۰ ریال جو حاجی کو دیے جاتے ہیں وہ ان کی ضرورت کےلیے کافی ہوتے ہیں۔