لکھنؤ: عالم اسلام کی بزرگ شخصیت اور مکتب تشیع کے احیاگر آیت اللہ العظمیٰ سید دلدار علی غفران مآبؒ کی یاد میں ادارہ ’’مکتب فقہی و کلامی حضرت غفران مآب‘ ‘ کی جانب سے ’یاد غفران مآب‘کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا۔ یہ پروگرام پکچر گیلری کے روبرو ادارہ کے دفتر میں منعقد ہوا۔ اس پروگرام میں ایران کے معروف محقق حجۃ الاسلام شیخ مہدی اسفند یاری نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ صدارت کے فرائض مولانا کلب جواد نقوی نے انجام دیے۔ پروگرام کا آغاز قاری مولوی صائم رضا نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ اس کے بعد مولانا اسیف جائسی کے فرزند محمد اعدل سلمی نے حضرت غفران مآب کی شان میں منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔
تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے ’مکتب فقہی و کلامی لکھنؤ‘ کے مسئول مولانا مصطفیٰ حسین نقوی اسیف جائسی نے پروگرام کی مقصد اور افادیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت غفران مآب کا پورے برصغیر پر احسان ہے اس لیے ہمیں ان کے کارناموں کو منصہ شہود پر لانا چاہیے۔ ایک وہ وقت تھاکہ جب لکھنؤ نے ایران و عراق کی علمی و مالی مدد کی تھی، آج انہیں چاہیے کہ وہ لکھنؤ کو ہرگز فراموش نہ کریں۔ کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف اسکالر حجۃ الاسلام شیخ مہدی اسفند یاری نے کہا کہ حضرت غفران مآب برصغیر کی شیعیت کے مروج ہیں۔ ان کے خدمات اظہر من الشمس ہیں جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت غفران مآبؒ کی عظمت کی افہام و تفہیم کے لیے ان کے شاگردوں اور اس عہد کے علماء کی کتابوں اور تحریروں کا مطالعہ نہایت اہم ہے۔ مثال کے طور پر علامہ مفتی محمد قلی کی کتاب ’’احکام عدالت علویہ ‘‘ کا مطالعہ کیا جائے جس میں انہوں نے آیت اللہ غفران مآبؒ کو کتنے احترام اور القابات و خطابات کے ذریعہ یاد کیا ہے۔
انہوں نے حضرت غفران مآب کو ہندوستان میں امامیہ طریقے پر نماز جمعہ و جماعت کا مروج بھی قرار دیا۔ شیخ مہدی اسفند یاری نے حضرت غفران مآب کی حیات اور خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے بعض کتابوں کا اجمالی جائزہ بھی پیش کیا جن میں الرمح المصقول، احکام عدالت علویہ، عبقات الانوار، شہاب ثاقب، عماد الاسلام سمیت دیگر کتابیں شامل رہیں۔ انہوں نے حجۃ الاسلام محمد تقی سبحانی، آقائی شیخ مختاری اور نمائندہ ولی فقیہ در ہند حجۃ الاسلام شیخ مہدی مہدوی پور کا پیغام بھی پڑھا جس میں مکتب لکھنؤ کی تاریخ اور اس کی عظمت پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی تھی۔