گورکھپور کے گورکھ ناتھ مندر کے جنوب مشرقی کونے پر واقع گاوں پوران گورکھپور ٹپا قصبہ پرگنہ حویلی تحصیل صدر کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انہیں اندھیرے میں رکھ کر ان سے زمین کے دستاویزات پر دستخط لیے گئے تھے۔ اس کے بعد مسلما نوں میں خوف کا ماحول ہے ۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اس جگہ پر عرصہ دراز سے رہتے آئے ہیں۔
ادھر رہائی منچ کے جنرل سکریٹری راجیو یادو نے کہا کہ اس میٹنگ میں لوگ بہت خوفزدہ تھے۔ جب ان لوگوں سے بات چیت کی گئی تو کئی سارے سوالات سامنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ تاحال تحفظ کے پیش نظر مندر انتظامیہ کی جانب سے کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی پروگرام ہوتا ہے تو ان کے گھروں پر پولیس کی تعیناتی کی جا تی ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ آج تک ریاست کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا ہے۔ جب بھی وہ یہاں کا دورہ کریں گے تو وہ ضرورو ان سے ملاقات کریں گے۔
لوگوں نے کا کہنا ہے چند روز قبل انتظامیہ نے زمین کی پیمائش کروائی تھی۔ مقامی لوگوں کو اس بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا اور نہ ہی انہیں کسی طرح کی کوئی جانکاری فراہم کی گئی تھی۔
راجیو یادو کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں نے بتایا کہ دستخط انہوں نے کیا تھا۔ یہ ایک عام عمل کے دستخط کی طرح تھا۔ مگرسوشل میڈیا پر آنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ یہ رضامندی کے دستخط کس لیے کرائے گئے ہیں۔
گورکھناتھ مندر کے اطراف میں پولیس فورس کی تعیناتی کے لیے حکومت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔
انتظامی عملہ نے لوگوں کی اراضی کی پیمائش کرائی اور رضامندی کے کاغذات پر دستخط کروائے۔ تاہم ابھی تک حکومت کے اس فیصلے کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ حکومت کا یہ فیصلہ کیا ہے؟ کب لیا گیا؟ اور اس کی پیروی کے لیے کس افسر کو مقرر کیا گیا تھا؟
حکومت کے کس عہدیدار نے رضامندی کا خط جاری کیا، اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ رضامندی کے خط میں کسی تاریخ کا بھی ذکر نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ رضامندی کب اور کیوں ہے؟ کسی بھی شخص کی زمین لینے کے لیے قانون میں باضابطہ طورپر ایک اصول مقرر ہے ۔
اخبار میں اراضی کے حصول کے لیے کوئی گزٹ شائع نہیں ہوا تھا، نہ ہی اسے کوئی اعتراض درج کرنے کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔