سابق آئی اے ایس انیس انصاری نے کہا کہ ہندو، مسلم، سکھ سمیت تمام مذاہب میں جو سیاسی رہنماء ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہر وقت 'مذہب اور تہذیب' کی بات ہو، اس سے ان کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ جو غریب طبقہ ہے وہ اپنی بھوک و پیاس اور بنیادی ضروریات کو چھوڑ کر جے شری رام اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے ایسے لوگوں کے پیچھے چلتے رہتے ہیں، جن کی تعداد بہت محدود ہوتی ہے لیکن اس سے جمہوری نظام میں رخنہ پیدا ہوتا ہے۔
سابق آئی اے ایس نے کہا کہ اگر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو پسماندہ طبقے کو سیاسی، تعلیمی اور معاشی طور پر آگے بڑھانا ہوگا، ایسے لوگوں سے میری اپیل ہے کہ وہ خود کو مذہب کی لڑائی سے الگ کر لیں، چاہے طلاق ثلاثہ کا معاملہ ہو یا تبدیل مذہب کا۔
انیس انصاری نے بتایا کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ہر شخص چاہے شہری ہو یا غیر شہری، اسے بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ کوئی بھی مذہب اختیار کر سکتا ہے لیکن آر ایس ایس تبدیلی مذہب جیسے مسئلہ کو پیدا کرکے سماج میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
'تبدیل مذہب کا مسئلہ حکومت کا گیم پلان ہے' - جے شری رام اور اللہ اکبر کے نعرے
ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں سابق آئی اے ایس انیس انصاری نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران کہا کہ سماج کے پسماندہ طبقات میں سیاسی، معاشی اور تعلیمی میدان میں بیداری کی ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں جو لوگ سیاست پر حاوی ہیں، وہ صرف 15 فیصد ہیں اور 15 فیصد سے کوئی بھی حکومت قابو میں نہیں آسکتی۔
anis ansari
انہوں نے بتایا کہ تبدیلی مذہب سب سے زیادہ انگریز حکومت کے دور میں ہوا ہے۔ انگریزی حکومت میں بنگال، آسام اور کیرالا میں بڑی تعداد میں تبدیلی مذہب ہوا لہذا یہ عقیدے کا مسئلہ ہے اس میں زبردستی نہیں چلتی۔