سر سید احمد خان برصغیر میں اسلامی تناظر میں جدید فکر کے بانی تھے علی گڑھ: بانی درسگاہ سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریہ عملیت کے حامل، مصلح اور فلسفی تھے۔ سید احمد کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 میں دلی کے سید گھرانے میں ہوئی اور آپ کی وفات 28 مارچ 1898 کو علیگڑھ میں ہوئی۔ ان کے والد سید متقی محمد شہنشاہ اکبر ثانی کے مشیر تھے اور والدہ عزیزالنساء نہایت مہذب خاتون تھیں۔
اردو اکاڈمی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار جن کا ماننا ہیں کہ سر سید کی تعلیمی خدمات سے دنیا واقف ہے لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ مزہب اسلام کی نئی تشریحات پیش کرنا اور وہ برصغیر میں اسلامی تناظر میں جدید فکر کے بانی تھے۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا چونکہ سر سید دہلی کے رہنے والے تھے تو انہوں نے اس دور کی دہلی کو دیکھا، علماؤں کو اور ان کے کارناموں کو دیکھ کر سر سید نے محسوس کیا کہ دین اور سیاست میں اس زمانے میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اس لئے انہوں نے اسلام کی نئی تعبیرات پیش کی۔
سر سید سمجتے تھے کہ خدا کی کتاب کا علم 'علم دین' ہے اور خدا کی کائنات کا علم 'علم سائنس'ہے۔ اس وقت سائنس کو اسلام مخالف سمجھا جاتا تھا۔ سر سید نے سائنسی مزاج کو فروغ دیا اور کہا دین اور دنیا میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی لئے جب سر سید نے اپنی تحریق شروع کی تو ان کو پریشانیوں اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
ابرار نے مزید بتایا سب سے اہم واقع ہے جس سے سر سید کی اسلامی بصیرت اور تشخص کا پاتا چلتا ہے وہ ہے اسلام اور پیغمبر کے خلاف سر ویلیم میور کی کتاب 'دی لائف آف محمد' کا جواب۔ سرسید کی كتاب الخطبات احمدیہ عالم اسلام اور آخری نبی کی سیرت پر مشتمل ہے۔ سرسید نے اس کتاب کو تحریر کرنے کا بیڑا اس لئے اٹھایا کہ مشہور مستشرق ولیم میور نے 1861 میں چار ضخیم جلدوں میں 'دی لائف آف محمد' کے نام سے کتاب لکھی تھی۔ اس کتاب میں ویلیم میور نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے نهایت تعصبانہ اور بے سروپا باتیں لکھی تھیں۔
واضح رہے 1857ء میں سر سید نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں ایم۔ اے۔ او کالج اور آپ کی وفات کے بعد 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر گیا۔ سرسید کا نقطۂ نظر تھا کہ مسلم قوم کی ترقی کی راہ تعلیم کی مدد سے ہی ہموار کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اوار دوسری اقوام کے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔
یہ بھی پڑھیں:Formula Student Austria 2023 اے ایم یو کا ایس اے ای کالجئیٹ کلب فارمولا اسٹوڈنٹ آسٹریا میں شریک ہوگا
سرسید احمد نے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلکہ مسلمانوں کے لئے جدید علوم کے حصول کی سہولتیں بھی فراہم کرنے کی پوری کوشش کی۔ انہوں نے سائنس٬ جدید ادب اور معاشرتی علوم کی طرف مسلمانوں کو راغب کیا۔ انہوں نے انگریزی کی تعلیم کو مسلمانوں کی کامیابی کے لیے زینہ قرار دیا تاکہ وہ ہندوئوں کے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل کر سکیں۔