مراد آباد:اترپردیش کے ضلع مراد آباد کے تھانہ چھجلوٹ کے دلہے پور گاؤں میں مسلمانوں نے ایک گھر میں اجتماعی طور پر نماز ادا کی جس پر ہندو مذہب کے لوگوں کو اعتراض ہوا اور انہوں نے تھانہ میں ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ ہندو فریق کا کہنا ہے کہ دونوں فریق کے مابین اس سے قبل ایک سمجھوتہ ہوا تھا اور گھر میں اجتماعی طور پر نماز ادا کرنا اس سمجھوتے کی خلاف وزری ہے۔ FIR registered against 26 people for performing congregational Prayers at home in Moradabad
مراداباد میں گھر میں اجتماعی نماز ادا کرنے پر چھبیس افراد کے خلاف ایف آئی آر درج یہ بھی پڑھیں:
بتایا جارہا ہے کہ گاؤں میں کوئی مندر نہیں ہم لوگ دوسرے گاؤں پوجا کرنے جاتے ہیں ہم نہیں چاہتے ہیں کہ گاؤں میں کوئی نئی روایت شروع ہو۔ اس حوالے سے تھانہ چھجلوٹ میں 16 نامزد اور 10 نامعلوم کے خلاف شکایت درج کی گئی ہے۔ ایس پی دیہات سندیپ کمار مینا نے کہا کہ اس پورے معاملے کی جانچ کا حکم دیا گیا ہے۔
معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے فوری کارروائی کی گئی ہے۔ ماحول خراب کرنے اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے سلسلے میں کیس درج کیا گیا ہے۔ جانچ کی کارروائی جاری ہے۔ واضح رہے کہ گاؤں اس سے قبل بھی دو مذہب کے ماننے والوں میں کشیدگی کا ماحول گرم ہوگیا تھا لیکن انتظامیہ نے دونوں فریق کو سمجھا کر صلح کرائی تھی۔
وہیں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے مراد آباد میں گھر میں نماز پڑھنے پر کیس درج ہونے کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اویسی نے وزیر اعظم نریندر مودی سے سوال سوال کیا کہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا سلوک کب تک ہوتا رہے گا؟
اسد الدین اویسی نے ٹویٹ کرکے پی ایم مودی سے پوچھا کہ ’’بھارت میں مسلمان اب گھر میں بھی نماز نہیں پڑھ سکتے؟ کیا اب نماز پڑھنے کے لیے بھی حکومت/پولیس سے اجازت لینی ہوگی؟ نریندر مودی کو اس کا جواب دینا چاہیے کہ کب تک ملک میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری سمجھا جائے گا؟'' ایم آئی ایم رہنما نے میں مزید لکھا کہ ’’معاشرے میں بنیاد پرستی اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اب دوسروں کے گھروں میں نماز پڑھنے سے بھی لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔‘‘