اردو

urdu

ETV Bharat / state

کانپور: چمڑے کی صنعت معاشی بحران کا شکار - چمڑے کی صنعت

کانپور میں چمڑا بنانے کی تقریبا 402 ٹینریز ہیں، جہاں ہر طرح کا چمڑا بنایا جاتا ہے، لیکن اچانک ہوئے لاک ڈاؤن سے اربوں روپے کا لیدر انڈسٹریز کو نقصان پہنچا ہے۔ کروڑوں روپے کا کیمیکل یا تو سوکھ گیا یا پھر آپنی متعینہ وقت کی مدت گزار گیا، جو اب ناقابل استعمال ہو گیا۔

چمڑے کی صنعت معاشی بحران کا شکار
چمڑے کی صنعت معاشی بحران کا شکار

By

Published : Jun 19, 2020, 7:14 PM IST

کانپور چمڑے کی صنعت کا ہب کہا جاتا ہے، یہاں پر ہر طریقے کا چمڑا بنایا جاتا ہے جو جوتا، چپل، بیگ، صوفہ کا کور، لیدر گارمنٹ، گھوڑے کی ساز، پرس، لیدر بیلٹ و دیگر چیزوں میں استعمال ہوتا ہے، لیکن اچانک پورے ملک میں لگائے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام ٹینریز بیک وقت بند ہوگئی، جس کی وجہ سے تقریباً 10 لاکھ مزدور بیروزگار ہوگئے۔

دیکھیں ویڈیو

اربوں روپے کا چمڑا جس پر کام چل رہا تھا، وہ ساراکام اپنی جگہ پر ٹھہر گیا۔ دو مہینے سے زائد چلے لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام مزدور اپنے گھروں کو چلے گئے، جو لیدر فنش ہونے کے لیے کام چل رہا تھا، جس میں کسی میں کیمیکل کو لگایا جانا باقی تھا، کسی میں کچھ کیمیکل لگانے جانے کے بعد کچھ اور کیمیکل لگایا جانا ضروری تھا چمڑے میں نرمی اور رنگ دینے کی ضرورت تھی اور کچھ کو سکھایا جانا باقی تھا، تمام کام کو متعینہ مدت میں پورا کیا جانا ضروری تھا، جو پورا نہیں ہوسکا۔ جس کی وجہ سے یہ چمڑا یا تو سڑ گیا یا سوکھ کر برباد ہو گیا۔

چمڑے پر کام کرنے کے لئے جن کیمیکل کا استعمال کیا گیا تھا، مزید اور کام میں اور کیمکل کا استعمال نہ کر پانے کی وجہ سے چمڑا تو خراب ہوا ہی، ساتھ میں تمام کیمیکل بھی برباد ہو گیا۔

کیمکل ایک بار سیل کھل جانے کے بعد اگر استعمال میں زیادہ وقت تک نہ لایا جائے تو اس کی قوت ختم ہوجاتی ہے یا وہ سوکھ جاتے ہیں ایسے نہ جائے کتنا کیمیکل بھی برباد ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے لیدر انڈسٹری کو اربوں روپے کا خسارہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد جب لوگوں نے اپنی ٹینریز کو کھولنا شروع کیا تو چمڑے کی بربادی دیکھ کر وہ بھی پریشان ہوگئے، انڈسٹری کو دوبارہ چلانے کے لئے جب انہوں نے مزدوروں کو جمع کرنا شروع کیا تو بڑی تعداد میں مزدور جو دوسرے اضلاع اور دوسرے پردیس کے تھے وہ اپنے اپنے گھر جا چکے ہیں، جن کی وجہ سے ٹینریز میں کام متاثر ہو رہا ہے۔

نئے سرے سے کام کرنے کی چاہ میں جب ٹینری مالکان کام کرنا چاہتے ہیں تو ایک طرف کام کرنے کے لئے مزدور نہیں ہیں، دوسری طرف بازار میں اس قدر کی گرانی ہے کہ کوئی بھی آرڈر نہیں مل رہا ہے۔ تمام ایکسپورٹرز جن کا مال غیر ملکوں میں بکتا تھا کورونا وائرس وبا کے کے چلتے تمام ایکسپورٹ بند ہے، جس کی وجہ سے ٹینریز مالکان کے پاس ایکسپورٹرز کی طرف سے بھی کوئی آرڈر نہیں ہے، ایسی صورت میں ٹینریز مالکان دوہری مار برداشت کر رہے ہیں۔

اتنی بڑی انڈسٹریز کو چلانے والے بیرونی ممالک میں لیدر کا ایکسپورٹ کرنے والے، جس کے ذریعے سے ملک کو کروڑوں ڈالر کا فائدہ پہنچتا ہے، ایسی انڈسٹری کو اتنا نقصان ہونے کے باوجود ان کو سرکار کی طرف سے کوئی بھی مدد حاصل نہیں ہے۔

ریاستی حکومت نے اتنا بھی نہیں کیا کہ تقریباً دو مہینے سے زائد تک بند رہیں ان ٹینریز کا بجلی کا بل ہی معاف کر دیتی یا انہیں کچھ مراعات دے دیتی، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details