اردو

urdu

ETV Bharat / state

ایک شاعر: شاعر و ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر انیس انصاری کے ساتھ خاص بات چیت - معروف شاعر و ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر

ای ٹی وی بھارت اردو کی خاص پیش کش 'ایک شاعر پروگرام' میں آج ہم بات کریں گے کہ معروف شاعر و ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر انیس انصاری سے۔

ایک شاعر: شاعر و ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر انیس انصاری کے ساتھ خاص بات چیت
ایک شاعر: شاعر و ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر انیس انصاری کے ساتھ خاص بات چیت

By

Published : Aug 16, 2021, 3:27 PM IST

ای ٹی وی بھارت اردو کے' ایک شاعر' خاص پروگرام کے تحت لکھنؤ کے معروف شاعر و ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر انیس انصاری سے خصوصی گفتگو کی گئی۔ اس دوران ان کے شعری سفر، مشاعروں سے ان کی دوری اور سرکاری ملازمت کرنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان سے وابستگی کے حوالے سے خاص بات چیت کی گئی۔

شاعر و ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر انیس انصاری کے ساتھ خاص بات چیت

انیس انصاری کا پورا نام محمد انیس انصاری ہے۔ یکم جولائی 1949 کو فتح پور ضلع کے بندکنی قصبہ میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1973 میں انہوں نے بھارت کے سب سے مشکل امتحان یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور سنہ 2009 میں وہ اترپردیش حکومت انتظامیہ میں چیف سیکریٹری کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

انیس انصاری کے اب تک 6 شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں، جن میں سے پانچ مجموعوں کو ایک ضخیم کتابی شکل میں شائع کرکے اس کا نام ' ادھوری حکایت' رکھا گیا ہے اور حال ہی میں ان کا چھٹواں شعری مجموعہ ' خوابستان کا مسافر' بھی شائع ہوا ہے۔ ان کا شعری سفر اب بھی جاری ہے، ان کی تازہ غزل 7 اگست کو تحریر کی گئی ہے۔ اردو شائقین کی پسندیدہ ریختہ ویب سائٹ نے بھی انیس انصاری کے اشعار و کتابوں کو جمع کرکے شائع کیا ہے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سنہ 1962 میں جب بھارت اور چین کے درمیان جنگ ہوئی تھی، اس وقت کے حالات نے انہیں شعر کہنے کی جانب راغب کیا اور یہیں سے ان کا اردو زبان سے محبت کا سفر شروع ہوا۔ اپنے ہم عصر ساتھیوں کے ساتھ شعر و شاعری کرنے لگے لیکن باضابطہ طور پر سنہ 1981 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ شائع ہوا۔ اس کے بعد جب ان کا داخلہ علی گڑھ میں ہوا تب وہاں کے ماحول نے شاعری کے شغف میں چار چاند لگادیئے۔

مزید پڑھیں:ایک شاعر: اردو کے مایہ ناز شاعر رئیس انصاری سے خصوصی گفتگو


انہوں نے بتایا کہ یوں تو شعری شغف پہلے ہی سے تھا لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلے کے بعد آل احمد سرور، شہر یار ریاض پنجابی جیسے ہم عصر شاعروں نے شعری دلچسپی میں مزید اضافہ کیا۔ یونیورسٹی کے زمانے میں ' ہم عصر' اور 'سنگم' نام سے تنظیمیں بھی بنائی گئی تھیں، جس کے زیر اہتمام شعری نشستیں منعقد ہوا کرتی تھیں اور بیشتر نشستوں کی صدارت آرٹ فیکلٹی کی معروف ہستیاں کرتی تھیں، جیسے خلیل الرحمٰن اعظمی و دیگر مشہور اردو ادیب اس کی صدارت کیا کرتے تھے۔ اس نشست میں نہ صرف شعر و شاعری بلکہ تنقیدی دور بھی ہوا کرتا تھا۔ علی گڑھ سے شائع ہونے والا رسالہ بریز میں میرا پہلا کلام شائع ہوا تھا جس کا ہدیہ مجھے بیس روپہ ملا تھا۔

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ آئی اے ایس افسر ہونے کے بعد ادبی زندگی میں بہت فائدہ ہوا۔ میرا متعدد علاقوں میں تبادلہ ہوا اور وہاں کی تہذیب، رنگ و بو، سماج کی شکست و ریخت کرنے والے تمام تر مسائل سے روبرو ہونے میں مدد ملی۔ بھارت کی سیاست کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، فرقہ وارانہ فسادات، بابری مسجد سانحہ اور سماج میں نہ برابری جیسے عنوان سے مختلف شعری اصناف پر اشعار موجود ہیں۔

مشاعروں سے دوری کیوں؟
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی دور میں خوب مشاعرے پڑھے جس میں بڑے بڑے شعراء شامل ہوتے تھے جیسے احمد فراز، بشیر بدر کیفی اعظمی و اردو کے دیگر ممتاز شعرا شامل تھے۔ لیکن اس ملازمت میں آنے کے بعد مشاعروں میں جانا کم ہوگیا اور اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ ایک سرکاری عہدے پر فائز ہونے کے بعد لوگ ان تعلقات پر اپنے ذاتی کام کروانے کی جانب زیادہ توجہ دیتے تھے، اس وجہ سے میں نے مشاعرے سے دوری اختیار کرلی۔ لیکن کانپور میں بہت بار تبادلہ ہوا اور وہاں کے لوگوں سے اس وقت ذاتی تعلقات ہوگئے، اس بنیاد پر وہاں کے کچھ مشاعروں میں شامل ہوا۔ پھر لکھنؤ کے معروف مشاعروں میں بھی شامل ہونے کا موقع ملا جس میں اردو کے معروف پیر زادہ منظور بھی حصہ لیتے تھے۔

اردو کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں اردو کی ترقی کے لیے دو باتیں اہم و ضروری ہیں، ایک تو اردو زبان کو مذہبی خانوں سے دور رکھیں اور اردو زبان پر جو مسلمانوں کی زبان ہونے کا ٹیگ لگا ہوا ہے اسے ختم کرنا ہوگا۔

دوسرا یہ کہ پرائیویٹ اسکول و کالجز میں اردو کے چاہنے والے سرگرم کارکنان کو چاہیے کہ وہ اردو زبان کے حوالے سے پرائیویٹ یا کالج انتظامیہ سے بات کریں اور وہاں کے نصاب میں اردو زبان کو شامل کروائیں اور اس کے لیے اساتذہ مہیا کراءیں۔

انہوں نے اس حوالے سے لکھنؤ کے مشہور لاء مارٹن کالج کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مارٹن کالج لکھنؤ کا سب سے معروف اور معیاری کالج ہے جہاں پر اختیاری طور پر کوئی بھی طالب علم اردو مضمون لے سکتا ہے۔ اسی طرح مختلف پرائیویٹ کالجز یا اسکول میں پڑھنے والے بچوں کو اسکول و کالج انتظامیہ سے اردو کی تعلیم کے حوالے سے بات کرنا ضروری ہے۔ ساتھ میں حکومت اور انتظامیہ کو بھی اردو زبان کو لے کر تعصبانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ اردو زبان سب کی زبان ہے، اس کا تعلق کسی مخصوص مذہب یا افراد سے نہیں ہے۔ ذاتی طور پر اردو کی بڑی خدمات انجام دی جاسکتی ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details