ای ٹی وی بھارت اردو کی جانب سے 'ایک شاعر' نام سے خاص پروگرام چلایا جارہا ہے جس کے تحت ملک کے مختلف شہروں کے اردو شعراء سے گفتگو اور ان کی شاعری کے بارے میں باتیں کی جارہی ہیں۔ ایک شاعر پروگرام میں شعراء کے شعری سفر کی ابتداء، یادگار مشاعرے و اردو شاعری کی جانب بڑھتے رجحانات کے حوالے سے خاص بات چیت کی جاتی ہے۔
اسی سلسلے کے تحت لکھنؤ کے نوجوان شاعر مظہر عباس سے خاص بات چیت کی گئی اور ان کے شعری سفر کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کا اقتباس درج ذیل ہے۔
نوجوان شاعر مظہر عباس کا پورا نام سید مظہر علی عباس ہے۔ ان کی پیدائش 25 اگست 1994 کو لکھنؤ کے کھدرا میں ہوئی اور اب لکھنؤ کے چوک علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔
مظہر عباس نے لکھنؤ کے فرقانیہ مدرسہ میں ابتدائی تعلیم کے بعد ممتاز پی جی کالج سے اردو مضمون سے گریجویشن کیا۔ انہوں نے متعدد مشاعرے پڑھے ان کے غزلیہ کلام کو ریختہ نے اپنی ویب سائٹ پر بھی شائع کیا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران مظہر عباس نے بتایا کہ 2015 میں جب وہ ممتاز پی جی کالج میں بی اے سال دوم کے طالب علم تھے اس زمانے میں انہوں نے اپنے استاد کو ایک شعر کی تشریح سنائی جس کے بعد انہیں شاعری کا ذوق پیدا ہوا اور وہ شعر یہ تھا۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
انہوں نے بتایا کہ اس شعر نے انہیں اتنا متاثر کیا کہ 2016 سے وہ باضابطہ طور پر شاعر ہوئے اور اور اترپردیش، دہلی اور پنجاب سمیت متعدد ریاستوں میں مشاعروں میں شامل ہوکر خوب داد و تحسین حاصل کی۔
مظہر عباس نے کہا کہ لکھنؤ اردو و تہذیب و ادب اور شاعری کے حوالے سے منفرد شناخت رکھتا ہے۔ لکھنؤ شہر میں اردو شاعری کرنا نہایت مشکل تھا تاہم شعری ذوق نے اس قدر برانگیختہ کیا کہ لکھنؤ کے نامور مشاعروں کے بڑے شعراء نے تعریفوں سے نوازا۔
انہوں نے بتایا کہ 'کھدرا میں پہلا مشاعرہ تھا جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا اس وقت میرے پیر کانپ رہے تھے لیکن رفتہ رفتہ شہرت ملتی گئی اور اب ریختہ نے بھی میرے کلام کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا ہے۔
مظہر عباس کے مطابق موجودہ دور میں مشاعروں کے حوالے سے نوجوان شعراء میں یہ کمی دیکھی جارہی ہے کہ بیشتر نوجوان شاعر مشاعرے کی ابتدا میں شعر سناکر اسٹیج سے رخصت ہوجاتے ہیں، ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے سینیئر شعراء کو سننا اور ان کی شاعری سمجھنا چاہیے اور ان سے کچھ حاصل کرنا چاہیے جو موجودہ دور میں کہیں نہ کہیں ناپید ہورہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اردو شعراء اپنے خیالات کو سماج کی فرسودہ روایات، غریب مظلوم کی آواز کو اپنے شعری قالب میں ڈھال کر عوام اور حکومت تک پہنچاتے رہے ہیں اس حوالے سے دبستان لکھنؤ کا ایک تابندہ باب ہے اور امید ہے کہ آنے والے وقت میں لکھنؤ کے نوجوان شاعر اسے عروج پر لے جائیں گے۔
- مظہر عباس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
شعر اچھا ہو تو پھر داد ملا کرتی ہے
کہیں آواز کتابوں میں چھپا کرتی ہے