اردو

urdu

ETV Bharat / state

مسکان کے ماں باپ اسے کیوں نہیں اپنا رہے ہیں؟ - مسکان

مسکان 'ہائپرٹروفائڈ کلائٹورس' کی متاثرہ ہے، اس قسم کے کیس میں بچے کے جنس کا تعین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

baby

By

Published : Jun 20, 2019, 9:54 AM IST


ریاست اترپردیش کے شہر بریلی کے ایک ہسپتال میں 'مسکان' نامی ایک نوزائیدہ گذشتہ ایک ماہ سے اپنے والدین کی راہ دیکھ رہی ہے۔

مسکان 'ہائپرٹروفائڈ کلائٹورس' کی متاثرہ ہے، اس قسم کے کیس میں بچے کے جنس کا تعین کرنا مشکل ہو جاتا ہے
مسکان کے والدیں اسے گرونانک میٹرنٹی اینڈ چائلڈ ہسپتال علاج کے لیے اور وہی چھوڑ کر فرار ہوگئے۔

یہ بچی'ہائپرٹروفائڈ کلائٹورس' کی شکار ہے۔ اس قسم کے بچے کے جنس کا تعین کرنا مشکل ہوتا ہے۔

مسکان تقریبا ایک ماہ سے زندگی اور موت کے درمیان جدوجہد کررہی ہے۔ اس دوران مسکان کے والدین ایک بار بھی اسے دیکھنے نہیں آ ئے۔

ہسپتال انتظامیہ کے مطابق بچی چھوڑکر جانے والے والدین اس کے اصلی والدین اور سرپرست ہیں، جبکہ والدین اس بچی کو کسی صورت اپنانے کو تیار نہیں ہیں۔

اس کے پیش نظر'چائلڈ ویلفیئر سوسائٹی' کے مطالبہ پر ضلع انتظامیہ نے بچی اور والدین کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کے لیے مسکان کے مبینہ والدین کو ہسپتال بُلانے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔

ادھر مسکان کے مبینہ والدین نے ہسپتال انتظامیہ پر ہیرا پھیری کا الزام لگایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 6 جون کو اپنے بیٹے کو علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کیا تھا اور انتظامیہ انہیں تیسرے صنف والا بچہ حوالے کر رہا ہے۔
جبکہ ہسپتال انتظامیہ نےدعوی کیا کہ بچی کو بغرض علاج ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بچی کوایک خاص قسم کی بیماری ہونے کی وجہ سے والدین کو پیدائش کے وقت لگا کہ انہیں بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے لہذا وہ غلط فہمی کی وجہ 7 جون کو 'مسکان' کو ہسپتال میں چھوڑکر چلے گئے۔
جب یہ خبر عام ہوئی تو مسکان کو اپنانے کے لیے سینکڑوں ہاٹھ آگے بڑھے ہیں۔ چائلڈ ویلفیئر سوسائٹی کے مجسٹریٹ اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
محض 35 دن کی مسکان کو اپنے والدین کا انتظار ہے۔

حالانکہ چائلڈ ویلفیئر سوسائٹی بچی کو پولس اور ضلع انتظامیہ کی مدد سے والدین تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ہسپتال انتظامیہ اس بات سے خوش ہے کہ شہر کی تمام تنظیموں نے بچی کے تئیں محبت کا مظاہرہ پیش کرتے ہوئے ہر ممکن علاج کا خرچ اٹھانے کی حامی بھری ہے۔
ہمارے سماج کے تانے بانے اتنے پچیدہ اور قنوطیت کے شکا ر ہیں کہ آج بھی ہم تیسرے صنف کو فراخ دلی سے قبول نہیں کر تے۔ حتی کہ حقیقی والدین بھی اس قسم کے بچے کو برادشت نہیں کر نا چاہتے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details