ریاست اترپردیش کے ضلع سہارنہور میں واقع دیوبند میں سوشل میڈیا پر دارالعلوم دیوبند کے نام سے ایک فرضی فتویٰ چلایا جارہا ہے، جس میں غیرذمہ دارانہ اور مشتعل باتیں تحریر کی گئی۔
وائرل فتویٰ کو دارالعلوم دیوبند نے فرضی قرار دیا دارالعلوم دیوبند نے اس فتوے کو فرضی قرار دیا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ دارالعلوم میں اس نام کا کوئی استاذ نہیں ہے۔
دارالافتاء نے اس طرح کے فتوے کو غلط قرار دیا ہے۔
اسی سلسلے میں دارالعلوم دیوبند نے سخت رخ اختیار کرتے ہوئے پولیس کو کارروائی کے لئے تحریر دی ہے، حالانکہ خبر لکھے جانے تک پولیس نے کسی بھی ملزم کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا ہے۔
وہیں گزشتہ روز دارالعلوم دیوبند کے نام سے ایک پوسٹ سوشل میڈیاکے ٹوئیٹر پر ایک پوسٹ ڈالی گئی جس میں ایک مولانا نے دارالعلوم کا فتویٰ بتاتے ہوئے غلط الفاظ کا استعمال کرکے سماج کے لوگوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔
جس کے بعد کئی لوگوں نے اس کے اسکرین شارٹ فیس بک پر شیئر کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے تئیں بھی غلط زبان کا استعمال کیا۔
اس واقعہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے آج دیوبند کوتوالی میں تحریر دیتے ہوئے ملزم کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
حالانکہ دیوبند پولیس نے دیر شام تک کسی بھی ملزم کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا تھا۔
تھانہ انچارج نے بتایا کہ معاملہ ان کے علم میں نہیں ہے، ان کے مطابق تحریر ملنے پر قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
واضح ہو کہ سی اے اے کی حمایت اور مخالفت میں ہورہے احتجاجی مظاہرے کے بعد اب دہلی فساد کے چلتے سوشل میڈیا میں ایک کے بعد ایک سوشل میڈیا پر مشتعل پوسٹ کا سلسلہ جاری ہے۔
فیس بک پر ایک مولانا کے نام سے 29 فروری کو ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے اسے دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ بتایا گیا تھا، جب کہ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء نے ایسا کوئی فتویٰ جاری کرنے سے صاف انکار کردیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اس نام کے مولانا کا ادارے سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے۔