اردو

urdu

ETV Bharat / state

نئی آبادی پالیسی انسانی حقوق کے خلاف: دارالعلوم دیوبند

دارالعلوم دیوبند کے میڈیا ترجمان اشرف عثمانی نے نئی آبادی پالیسی کو ہر طبقہ کے لیے ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دو سے زائد بچوں کے والدین کو سزا دینے والے فیصلے کا براہ راست اثر ان کے بچوں پر پڑے گا۔

نئی آبادی پالیسی انسانی حقوق کے خلاف
نئی آبادی پالیسی انسانی حقوق کے خلاف

By

Published : Jul 12, 2021, 10:41 PM IST

اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی مجوزہ نئی آبادی پالیسی 2021-2030 پر عالم اسلام کی ممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند نے اپنا سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے حکومت کے اس قدم کو انسانی حقوق کے خلاف بتایا ہے۔

اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کے میڈیا ترجمان اشرف عثمانی نے کہا کہ جس انداز سے آبادی کنٹرول ایکٹ نافذ کیا جارہا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ انسانی حقوق کے خلاف ہے۔

نئی آبادی پالیسی انسانی حقوق کے خلاف

انہوں نے کہا کہ اگر دو سے زائد بچے پیدا ہوگئے اور انہیں ہر طرح کی سہولیات سے محروم کر دیا گیا تو اس میں ان بچوں کی کیا خطا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قانون انصاف پر مبنی نہیں ہے، یہ غلط ہے۔

مولانا اشرف عثمانی نے مزید کہا کہ عالمی و ملکی آبادی پالیسی اور اعداد و شمار کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے اور انصاف پر مبنی قانون ہونا چاہئے۔ انہوں نے نئی پالیسی کو ہر طبقہ کے لئے ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دو سے زائد بچوں کے والدین کو سزا دینے والے فیصلے کا براہ راست اثر ان کے بچوں پر پڑے گا۔

مزید پڑھیں: UP Population Policy: دو سے زائد بچوں پر متعدد اسکیمز سے محروم ہوجائیں گے، جانیے تفصیلات

غور طلب ہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اتوار کے روز اتر پردیش کی نئی آبادی پالیسی 2021-2030 جاری کی ہے۔ بل کے مسودے کے مطابق دو سے زائد بچوں والے والدین کو سرکاری ملازمتیں نہیں ملے گی اور نہ ہی وہ بلدیاتی انتخابت لڑنے کے اہل ہوں گے۔

اتنا ہی نہیں اس مسودہ کی تجویز کے مطابق جہاں ایک اور دو بچوں والے افراد کو سرکاری سہولیات میں خصوصی فوائد دئیے جائیں گے وہیں دو سے زائد بچوں والے خاندان کو 77 قسم کی سرکاری سہولیات سے محروم کردیا جائے گا۔

حالانکہ آبادی کے متعلق ریسرچ کرنے والے ماہرین کے مطابق اترپردیش یا ملک میں فی الحال اس قسم کے کسی بھی قانون کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قومی یا عالمی سطح پر اس قسم کے قوانین کی تصدیق نہیں ہوتی۔ وشو ہندو پریشد نے بھی اس پر اعتراض ظاہر کیا ہے کیونکہ 2015 نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق ملک کی آبادی کی شرح 2.2 ہے جبکہ اترپردیش کی آبادی کی شرح 2.7 سے ہے ،ان اعداد و شمار کے مطابق اگر ایک بچہ کی پیدائش کی ترغیب اور ترجیح دی گئی تو آبادی کا تناسب بھی بگڑ سکتا ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details