علی گڑھ:معروف نقاد، ادیب، ماہر لسانیات اور ساہتیہ اکیڈمی کے سابق چیئرمین پروفیسر گوپی چند نارنگ Gopi Chand Narang کے انتقال سے اردو زبان و ادب کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا Tributes to Gopi Chand Narang۔ گوپی چند نارنگ اردو ادب میں موجودہ عہد کے آخری بڑے نقاد تھے۔ گوپی چند نارنگ 15 جون کو 91 برس کی عمر میں اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کی پیدائش 11 فروری 1931 کو ڈکی، زیریں پنجاب میں ہوئی۔ قابل ذکر ہے کہ گوپی چند نارنگ تقریباً 64 کتابوں کے مصنف تھے۔ اردو زبان میں ان کی 45 کتابیں ادب کا سرمایہ سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی 12 انگریزی میں اور 7 ہندی میں کتابیں ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے صدر شعبہ، کوآرڈینیٹر سینٹر آف ایڈوانس اسٹڈیز پروفیسر محمد علی جوہر نے شعبہ اردو میں گوپی چند نارنگ کے انتقال پر تعزیتی جلسے میں گوپی چند نارنگ کی شخصیت کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ "مابعد جدید تھیوری کو اردو میں متعارف کرانے کا سہرا ان کے سر جاتا ہے۔ وہ ایک نظریہ ساز، نقاد اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ غزل، فکشن اور تحقیق جیسی اصناف پر حوالہ جاتی کام کیا۔ وہ ادیب کے ساتھ ہی منتظم بھی تھے جس کے گواہ دہلی یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کے ساتھ ہی وہ سیمینار و سیمپوزیم بھی ہیں جو انہوں نے کرائے۔ وہ ہمیشہ اپنے چھوٹوں کا خیال رکھتے تھے، یہ ان کا بڑا اوصف تھا۔ اب ایسے لوگ کہاں موجود ہیں۔ نارنگ کے انتقال پر ہم سب رنجیدہ ہیں اور دعا گو ہیں کہ ان کا نعم البدل اردو دنیا کو عطا ہو۔
پروفیسر طارق چھتاری نے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ گوپی چند نارنگ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن وہ اپنے نقوش ہمارے لیے چھوڑ گئے ہیں، اگر کسی میں خواہش ہے جذبہ ہے تو وہ ان کے نقوش سے کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ انہوں نے علی گڑھ کے بزرگ ادیبوں کے حوالے سے کہاکہ پہلے زمانے میں ان لوگوں نے بھی گوپی چند نارنگ کی طرح محنت کرنے والا نہیں دیکھا، یہی وجہ ہے کہ زندگی میں انہوں نے اتنی بڑی بڑی کامیابی حاصل کیں۔ انہوں نے کہاکہ اردو نارنگ صاحب کی مادری زبان نہیں تھی، ان کی مادری زبان سرائیکی تھی لیکن اردو ایک شیریں زبان ہے یہ نارنگ کہ خطبات سن کر ہی یقین آیا کیوں کہ جس انداز میں وہ بولتے تھے وہ انداز کسی اور کے پاس نہیں تھا۔'