نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ بنارس کی گیان واپی مسجد، مسجد ہے اور مسجد رہے گی، اس کو مندر قرار دینے کی کوشش فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے کی ایک سازش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ بات انہوں نے آج یہاں جاری ایک بیان میں کہی۔ Statement of Muslim Personal Law Board at Gyan Vapi Mosque Row
انہوں نے کہا کہ یہ تاریخی حقائق کے خلاف اور قانون کے خلاف ہے۔ ۷۳۹۱ء میں دین محمد بنام اسٹیٹ سکریٹری میں عدالت نے زبانی شہادت اور دستاویزات کی روشنی میں یہ بات طے کردی تھی کہ یہ پورا احاطہ مسلم وقف کی ملکیت ہے اور مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کا حق ہے۔ عدالت نے یہ بھی طے کر دیا تھا کہ متنازع اراضی کا کتنا حصہ مسجد ہے اور کتنا حصہ مندر ہے۔ اسی وقت وضو خانہ کو مسجد کی ملکیت تسلیم کیا گیا۔ پھر ۱۹۹۱ء میں (Places of Worship Act 1991) پارلیمینٹ سے منظور ہوا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ۷۴۹۱ء میں جو عبادت گاہیں جس طرح تھیں ان کو اسی حالت پر قائم رکھا جائے گا۔ 2019ء میں بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے بہت صراحت سے کہا کہ اب تمام عبادت گاہیں اس قانون کے ما تحت ہوں گی اور یہ قانون دستور ہند کی بنیادی اسپرٹ کے مطابق ہے۔ اس فیصلہ اور قانون کا تقاضہ یہ تھا کہ مسجد پر ہندو فریق کے دعوے کو عدالت فورا (خارج) رد کردیتی، لیکن افسوس ہے کہ بنارس کے سول کورٹ نے اس مقام کے سروے اور ویڈیو گرافی کا حکم جاری کر دیا، وقف بورڈ اس سلسلہ میں ہائی کورٹ سے رجوع کرچکا ہے اور ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ زیر التوا ہے۔ Closing a part of Gyanvapi Mosque on the basis of survey report is injustice says AIMPLB
انہوں نے کہا کہ اسی طرح گیان واپی مسجد کی انتظامیہ بھی سول کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ Supreme Court سے رجوع کرچکی ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی یہ مسئلہ زیر سماعت ہے، لیکن ان تمام نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے سول عدالت نے پہلے تو سروے کا حکم جاری کر دیا اور پھر اس کی رپورٹ قبول کرتے ہوئے وضو خانہ کے حصہ کو بند کرنے کا حکم جاری کردیا، یہ کھلی ہوئی زیادتی ہے اور قانون کی خلاف ورزی ہے جس کی ایک عدالت سے ہرگز توقع نہیں کی جاسکتی۔ عدالت کے اس عمل نے انصاف کے تقاضوں کو مجروح کیا۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اس فیصلہ پر عمل آوری کو روکے۔ AIMPLB Reacts over Gyanvapi Masjid Row