لکھنؤ :مرکزی حکومت کی اقلیتی وزارت نے ایک سرکلر جاری کرکے اطلاع دی ہے کہ رواں برس سے اقلیتی طبقہ کے پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کے طلبا وطالبات کو اسکالرشپ سے محروم کردیا گیا ہے۔ جاری سرکلر میں کہا گیا ہے کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن قانون کے نفاذ کے بعد بچوں کو مفت تعلیم مہیا کی گئی ہے، لہٰذا اسکالرشپ دینے لیے کوئی جواز نہیں ہے۔ اب پری میٹرک اسکالرشپ صرف نویں اور دسویں جماعت کے طلباء حاصل کرسکیں گے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اتر پردیش کے مدراس میں رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کا نفاذ نہیں ہوا ہے۔ اس کے باوجود مدارس کے طلبا و طالبات کو اسکالر شپ سے محروم کردیا گیا۔ اس ضمن میں ای ٹی وی بھارت نے مدارس کے طلبا و اساتذہ سے بات چیت کی ہے اور اقلیتی طبقہ میں اس سے تعلیمی شرح پر کیا اثرات ہوں گے یہ بھی جاننے کی کوشش کی ہے۔ Central Government Removed Minority Students Scholarships
Minority Students Scholarships یوپی مدارس پر رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ نافذ نہیں، اس کے باوجود اسکالرشپ سے محروم
اترپردیش میں مدارس پر رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ نافذ نہیں ہے۔ اس کے باوجود ریاست کے مدارس کو اسکالرشپ سے محروم کردیا گیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کے بعد یہاں ڈراپ آؤٹ ریٹ میں اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ Central Government Removed Scholarships
یہ بھی پڑھیں:
لکھنؤ کے شیخ العالم مدرسہ صابریہ چشتیہ کے طلبا سے بات چیت کی گئی جس میں طلبا و طالبات کا واضح طور پر کہنا ہے کہ مدارس کے طلبا و طالبات غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں ایسے میں حکومت کی جانب سے ملنے والا وظیفہ کافی مددگار ثابت ہوتا تھا لیکن اس کے بند ہونے سے طلبا کی ڈراپ آؤٹ شرح میں اضافہ ہوگا۔ طالب علم نقی کا کہنا تھا کہ حق تعلیم ایکٹ جب مدارس پر نافذ نہیں ہے تو مدارس کے طلبا کو اسکالرشب سے کیوں محروم کیا گیا مدارس کے طلبا و طالبات کو اسکالرشپ دینا چاہیے اس سے تعلیمی پسماندگی دور ہوگی۔ وہ بتاتے ہیں کہ مدارس کے ہاسٹل میں رہنے والے طلبا کے والدین کی مالی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہوتی لہٰذا وہ بچوں کے اخراجات کو برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں اور نتیجتاً طالب علم کو پڑھائی چھوڑنی پڑتی ہے۔
وہیں مدرسہ کے دوسرے طالب علم کا کہنا ہے کہ اس رقم سے ہم فیس جمع کرتے تھے ڈریس لیتے تھے کاپی کتاب خریدتے تھے چونکہ مدارس میں حق تعلیم ایکٹ نافذ نہیں ہے اس لیے اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں لہٰذا حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ استانی فرحانہ (ٹیچر) کہتی ہیں کہ اسکالر شپ بند ہونے سے اقلیتی طبقہ کے طلبا و طالبات کی تعلیمی پسماندگی میں اضافہ ہوگا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سماج میں تعلیمی بیداری نہیں ہے اور جو لوگ تعلیم سے قریب ہورہے ہیں غربت کے شکار ہیں بچوں کے ڈریس کتاب۔ قلم۔ کاپی اور مدراس میں پڑنے والی۔معمولی فیس ادا نہیں کر پاتے اور بچوں کو کاروبار میں لگا دیتے ہیں۔ وہیں مولانا نسیم کہتے ہیں حکومت اپنے فیصلہ پر غور کرے اقلیتی طبقہ کے طلبا و طالبات کی ڈراپ آؤٹ شرح میں اضافہ ہوگا اور تعلیمی پسماندگی بڑھےگی۔