لکھنؤ: 19 دسمبر 2019 کو ملک گیر سطح پر سی اے اے اور این آر سی کے خلاف خواتین نے مظاہرہ Women's protest against NRC شروع کیا، لکھنؤ میں بھی یہ مظاہرہ گھنٹہ گھر سے شروع ہوا اور ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے اس میں شرکت کی۔
دیکھتے ہی دیکھتے لکھنو کے پریورتن چوک، گھنٹہ گھر کھدرا اور دیگر علاقوں میں پر تشدد مظاہرے شروع ہوگئے جس میں سرکاری املاک کا کافی تقصان پہنچا۔
اس مظاہرے کے بعد انتظامیہ نے کاروائی کرتے ہوئے 64 لاکھ سے زائد کی رقم کی بھرپائی کے لیے 28 افراد کے پاس نوٹس بھیجا، لیکن کسی نے بھی رقم جمع نہیں کیا، اسی دوران اترپردیش حکومت نے سرکاری املاک کے نقصان کی بھرپائی کے لیے ایک قانون بھی بنایا جس کا نفاذ مارچ 2020 سے کیا گیا۔
سی اے اے مظاہرے Women's protest against NRC کے دوران جیل گئے ایڈوکیٹ محمد شعیب بتاتے ہیں کہ حکومت نے پہلے ان کو جیل بھیجا اس کے بعد لکھنؤ کے متعدد چوراہوں پر 28 لوگوں کے فوٹو لگائے اور اعلان کیا گیا کہ ان لوگوں سے سرکاری املاک کے نقصان کی وصولی کی جائے گی جس کو الہ آباد ہائی کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا تھا، اس کے بعد ایک نوٹس آیا جس میں 20 لوگوں کا نام تھا اور ان لوگوں کو 64 لاکھ روپے کی رقم حکومت کے خزانے میں جمع کرنے کی بات کہی گئی تھی۔
وہیں لکھنؤ کے گھنٹہ گھر پر ہونے والے سی آئی اے کے خلاف مظاہرے Women's protest against NRC میں پیش پیش رہنے والی عظمی پروین بتاتی ہیں کہ ان پر 62 مقدمے درج کیے گئے ہیں اور وہ آئے دن عدالت کا چکر لگاتی ہیں۔ ان مقدمات کی وجہ سے ان کی زندگی متعدد پریشانیوں میں مبتلا ہے۔مزید پڑھیں:
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کسان مظاہرے میں بھی لوگوں پر متعدد مقدمات درج کیے گئے تھے لیکن مظاہرہ ختم ہونے کے بعد وہ مقدمہ واپس لے لیے گئے اور مرنے والوں کو بھی معاوضہ دینے کے لئے حکومت تیار ہے، لیکن سی اے اے مظاہرہ تو ختم ہوگیا لیکن مظاہرین پر درج مقدمہ واپس نہیں لیے گئے اور نہ ہی اس میں مرنے والے افراد کے اہل خانہ کو معاوضہ دیا گیا، کیا مسلمانوں کے ساتھ حکومت کا رویہ اتنا جانبدارانہ ہوگا؟
واضح رہے کہ سی اے اے Women's protest against NRC کے دوران اتر پردیش میں لکھنؤ کا گھنٹہ گھر مظاہرین کا مرکز بن چکا تھا لیکن کورونا وبا کی وجہ سے یہ مظاہرہ ختم کرنا پڑا اور اب لکھنؤ کے گھنٹہ گھر پر پولیس کا پہرہ ہے اس جگہ عوام کا داخلہ سختی سے ممنوع ہے۔