آگرہ: ریاست اترپردیش کے ضلع آگرہ میں مبینہ لو جہاد کا ایک معاملہ سامنے آیا ہے۔ الزام ہے کہ ایک نوجوان نے اپنا نام بدل کر ایک ہندو لڑکی کو اپنی محبت کے جال میں پھنسایا۔ متاثرہ نے رکاب گنج تھانے میں عدالت کے ذریعے مقدمہ درج کرایا ہے۔ اس معاملے میں پولیس تحقیقات کی بنیاد پر قانونی کارروائی کی بات کر رہی ہے۔ متاثرہ کے مطابق سال 2018 میں اس کے موبائل پر ایک مس کال آئی۔ اس نے جب واپس نمبر ملایا تو ایک لڑکے نے اپنا نام راجہ بتایا۔ نامعلوم نمبر ہونے کی بنیاد پر اس نے کال کاٹ دی۔ اس کے بعد راجہ نے اسے مختلف نمبروں سے کال کرنا شروع کر دیا۔ ملزم نے اس لڑکی سے دوستی کی درخواست کی اور ایک ہی ملاقات کے بعد دونوں میں دوستی ہو گئی۔ راجہ نے خود کو ہندو بتایا اور ان کی دوستی محبت میں بدل گئی۔
الزام ہے کہ اس دوران راجہ نے دھوکہ دہی سے اس کا ایک فحش ویڈیو بنایا۔ اس کے بعد اس ویڈیو کے نام پر راجہ نے اس پر شادی کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ متاثرہ نے بتایا کہ خاندان کی عزت کی خاطر اس نے رشتہ داروں کو اس شادی کے لیے راضی کیا۔ اس کے بعد وہ اسے پہلی بار اپنے گھر لے گیا۔ ان کا گھر بلو گنج کے درگئیہ علاقے میں تھا۔ گھر پہنچ کر راجہ سے اس کے مذہب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کا تعلق اسلام مذہب سے ہے۔ راجہ کا دوسرا نام معین خان ہے۔ اس کا جھوٹ بے نقاب ہونے کے بعد راجہ اور اس کے خاندان نے اسے یرغمال بنا لیا۔ راجہ کے والد محمد ریاض نے کہا کہ میرے بیٹے راجہ کے پاس تمہاری فحش ویڈیوز اور تصاویر ہیں۔ تمہیں شادی کرنی پڑے گی۔ اس کے بعد میں نے خاندان کی عزت کی خاطر شادی کے لیے ہاں کر دی۔
ایک الزام یہ بھی ہے کہ راجہ کے خاندان نے زبردستی مذہب تبدیل کر کے شادی کرائی۔ شادی کے بعد اسے اس کے مذہب پر طعنہ دیا گیا۔ گھر میں عبادت پر پابندی تھی۔ اس دوران اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد راجہ نے کہا کہ وہ اسے مکمل طور پر مسلمان کر دے گا۔ اس کے بعد راجہ اور اس کے خاندان کے افراد اس سے لڑنے اور گالیاں دینے لگے۔ اسے کئی دنوں تک بھوکا رکھا گیا۔ سال 2020 میں جب وہ اپنے بیٹے کے ساتھ گھر واپس آئی تو راجہ اور اس کے اہل خانہ اسے فون پر جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے واپس لے آئے۔