ملک میں کورونا وائرس کے سبب اموات میں تیزی سے اضافہ جاری ہے، جس وجہ سے شمشان گھاٹ ہو یا قبرستان ہر جگہ افراتفری کا ماحول ہے۔ شمشان گھاٹ میں جلا دیا جاتا ہے لہٰذا جگہ کی کمی نہیں ہوتی لیکن قبرستان میں جگہ محدود ہوتی ہے، جو ایک وقت کے بعد تدفین کے لیے جگہ ختم ہو جاتی ہے۔ ایسے حالات میں شریعت نے کیا حکم دیا ہے؟
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران دارالحکومت لکھنو کے شہر قاضی مفتی ابو العرفان فرنگی نے بتایا کہ شریعت نے ہمیں یہ چھوٹ دی ہے کہ جب زیادہ جنازے ہوں تو ایک ساتھ 'اجتماعی نماز جنازہ' پڑھی جا سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی صف میں سب سے زیادہ عمر والے کی میت ہو، اس کے بعد جوان کی، پھر اس کے بعد بچے کی اور سب سے آخر میں خاتون کی میت ہو۔ اس طرح سے ایک ہی نماز میں سبھی میت کی نماز جنازہ اجتماعی طور پر ادا کی جا سکتی ہے۔
مفتی ابو العرفان نے بتایا کہ جس طرح سے موجودہ وقت میں وبائی مرض سے لوگوں کی اموات ہو رہی ہیں، اس سے قبرستان میں تدفین کے لیے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لہذا اس کے لیے بھی شریعت نے وہی حکم دیا ہے، جو اجتماعی جنازہ کے لیے ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ ایک قبر میں کئی میتوں کو رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے بھی نماز جنازہ والا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے عمر دراز شخص کی میت ہو، اس کے بعد جوان کی، اس کے بعد بچے کی اور سب سے آخر میں خاتون کی میت ہو۔ یہاں پر اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ان سب میتوں کے درمیان میں گھاس یا چٹائی ہونی چاہیے تاکہ ایک دوسرے کا جسم آپس میں نہ لگنے پائیں۔
ایک قبر میں ایک سے زائد افراد کی تدفین ہو سکتی ہے؟
لکھنؤ کے شہر قاضی مفتی ابو العرفان فرنگی نے بتایا کہ شریعت نے ہمیں یہ چھوٹ دی ہے کہ جب زیادہ جنازے ہوں تو ایک ساتھ 'اجتماعی نماز جنازہ' پڑھی جا سکتی ہے۔
مسئلہ تدفین
قابل ذکر ہے کہ دارالحکومت لکھنؤ میں بھی کورونا وائرس سے بڑی تعداد میںلوگوں کی اموات ہورہی ہیں۔ اس کی وجہ سے قبرستان میں بھی جگہ کم پڑنے لگی ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ جب جگہ کم ہو جائے گی تو اس کے بعد میت کی تدفین کیسے ہوگی؟
شریعت نے اس میں بھی چھوٹ دے رکھی ہے کہ ایک ہی قبر میں کئی میتوں کی تدفین ہو سکتی ہے تاکہ لوگوں کو جگہ کے لیے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔