رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے جیل سے رہا ہونے کے بعد سب سے پہلے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بتایا کہ انہیں 18 دسمبر کو نظر بند کر دیا گیا ہے تھا لیکن رات میں ہی انہیں امین آباد تھانہ لے جایا گیا، جہاں ان سے پولیس افسران نے گالی گلوچ سے بات کیا اور منع کرنے پر پریوار کو برباد کرنے کی دھمکی دی گئی۔
ایڈوکیٹ شیعب نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کی، دیکھیں ویڈیو اگلے دن مجھے حضرت گنج تھانہ بھیج دیا گیا اور میرے ساتھ میں قائم عباس نام کے ایک نوجوان کو بھی ساتھ رکھا گیا، جو پولیس کا مخبر تھا۔ وہ مجھ سے بار بار راجیو یادوں کے متعلق جانکاری حاصل کرنا چاہ رہا تھا لیکن مجھے ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی۔
ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ جو کام اپوزیشن جماعتوں کو کرنا چاہیے وہ نہیں کر رہی بلکہ رہائی منچ اس کے لئے ہمیشہ سے آواز بلند کرتی رہی۔ رہائی منچ کی آواز اب عوام کی آواز بن چکی ہے۔
پولیس نے نوجوانوں اور سماجی کارکنان کے ساتھ بری طرح تشدد کیا لہذا اب خواتین کے کندھوں پر اس تحریک کا پورا دارومدار ہے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہوں گی۔
رہائی منچ کے صدر نے کہا کہ ہم سی اے اے اور این آر سی کے خلاف حکومت کو کوئی ثبوت پیش کرنے والے نہیں ہیں، بھلے ہی ہمیں جیل میں ڈال دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اب خاموش بیٹھنے کا وقت نہیں ہے۔ ہم اس تحریک کو شہر سے دور گاؤں دیہات تک لے جائیں گے اور ہر ایک فرد کو اس کی سچائی سے واقف کرائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت اس قانون کے حق میں مہم چلا رہی ہے اور ہم ان کے جھوٹ عوام کو بتائیں گے کہ یہ جو کہتے ہیں حقیقت میں وہ نہیں ہے بلکہ قانون بن چکا ہے وہ سچائی بتائیں گے۔
شعیب نے کہا کہ بی جے پی ہندؤں کو 'ہندو راشٹر' کا خواب دکھا رہی ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوگا۔ اس قانون کے ذریعے ہندو۔ مسلم کو لڑا کر اپنی حکومت قائم کرنا ہی انکا مقصد ہے۔
رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ اس قانون سے سب سے زیادہ پریشانی ہندو سماج کے دلت اور آدیواسی طبقے کو اٹھانی پڑے گی کیونکہ انہیں صرف اور صرف خدمت کے لیے ہی رکھا جائے گا۔