شہنائی نواز بسم اللہ خان کی پیدائش 21 مارچ 1916 کو بہار کے بکسر ضلع ڈمراں گاؤں میں ہوئی تھی لیکن ابتدائی عمر میں اپنے چچا علی بخش کے پاس وارانسی آگئے تھے اور انہی سے شہنائی بجانا سیکھا۔
اس کے بعد بسم اللہ خان، انہیں کے ساتھ کاشی کی وشوناتھ مندر میں شہنائی بجانے لگے۔ وہ وارانسی کے بالاجی مندر میں بھی برسوں تک شہنائی بجاتے رہے۔
بنارس کے مزاج کو اپنی روح میں جذب کر لینے والے بسم اللہ خان نے اپنی پوری زندگی میں بلندیوں کے اعلی مقام تک رسائی حاصل کی۔ بھارت کے معروف اور معزز ترین ایوارڈ بھارت رتن سے بھی انہیں نوازا گیا۔
بسم اللہ خان نے 1947 میں لال قلعہ پر نصف شب میں شہنائی بجا کر آزادی کا خیرمقدم کیا تھا اور پہلی بار جواہر لعل نہرو نے انہیں استاد کہا تھا تبھی سے بسم اللہ خان کو استاد بسم اللہ خان کہا جانے لگا۔
استاد بسم اللہ خان اپنے ہی شہر میں گمنام! بسم اللہ خان بنارس کے مندروں میں برسوں تک شہنائی نواز رہے اور ایام عزا میں فاطمہ سے کافی لگاؤ تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ 'بسم اللہ خان عزاداری کے ایام میں وارانسی کے فاطمان میں شہنائی بجاتے تھے اور امام حسین سے بے حد محبت کرتے تھے۔'
فاطمان میں ایک کنوئیں کے قریب چٹائی بچھا کر شہنائی بجاتے اور جلوس میں شرکت کرتے تھے۔ بسم اللہ خان جس مقام پر بیٹھ کر شہنائی نواز تھے، اسی جگہ آج وہ مدفون ہیں۔'
محرم کے ایام میں خان صاحب چپل بھی نہیں پہنتے تھے۔ فاطمان سے ان کی محبت و وارفتگی نے اتنا متاثر کیا کہ فاطمان میں ہی مدفون ہیں۔ بسم اللہ خان کو 2001 میں بھارت رتن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ پدم وی بھوشن پدم شری جیسے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔