ریاست میں ان لاک کا عمل شروع ہو نے سے پرانے مال کی سپلائ ہونے کے بعد زری کارخانوں میں نئے سوٹ، ساڑی وغیرہ پر کام شروع کرنے کی تیاریاں تیز ہو گیئ ہیں۔
زری کاریگروں اور کارخانہ مالکان کے مطابق لاک ڈاون کے نفاذ کے دوران کافی مال سپلائی نہیں ہو پایا تھا. زری کاریگر اپنے روایتی انداز میں مال تیار کر رہے تھے.
کورونا انفیکشن کی دوسری لہر آنے کے خدشات کے پیش نظر دہلی، ممبئی، راجستھان، پنجاب اور ہریانہ سے زری کے تیار مال کے مطالبات بند ہو گئےتھے.
کورونا انفیکشن کی دوسری لہر نے ایسا قہر برپایا کہ لوگوں کو اپنے شوق کی تکمیل کے بجائے جان بچانے کے لئے جدوجہد کرنی پڑی۔
زری کاروبار سے وابستہ افراد کو راحت ملک میں لاک ڈاؤن نافذ ہو نے کے بعد بازار، روزگار اور کاروبار اپنی جگہ تھم گیا. ظاہر ہے ایسے حالات میں کروڑوں روپیہ کی قیمت کا تیار مال اسٹاک کی صورت میں گھروں اور کارخانوں میں رکھنا پڑا. اب رفتہ رفتہ کاروبار پٹری پر واپس آ رہا ہے ۔اور بریلی کے باہر دیگر اضلاع اور ریاستوں میں زری کے تیار مال کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا ہے۔
سب سے پہلے بریلی سے اسٹاک کو ختم کیا جا رہا ہے. تاہم کاروباریوں کے امید کے مطابق کاروبار نے رفتار ابھی نہیں پکڑی ہے.
گزشتہ 15 دنوں میں تقریباً 200 کروڑ روپیہ کی قیمت کا زری کا تیار مال مثلاً سوٹ، ساڑی، لہنگا، چولی، دُپٹّہ وغیرہ کی سپلائی ہو چکی ہے.
واضح رہے کہ بریلی میں تقریباً چالیس ہزار کنبہ زری کاروبار سے وابستہ ہیں. ان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ بیرون ریاستوں میں کام کرنے کے لئے چلے گئے ہیں. تاہم اس کے برعکس کورونا کی دوسری لہر کے قہر نے کئی کاروباریوں کی طرز تجارت کو تبدیل کر دیا ہے.
حجیاپور علاقے میں رہنے والے امام الدین شہر کے نامور زری کاروباریوں میں شمار کئے جاتے ہیں. تاہم پہلے اور دوسرے لاک ڈاؤن نے زری کاروبار کو اتنا متاثر کیا کہ اب وہ زری کا کاروبار کرنے کے بجائے پلائ بورڈ فروخت کر رہے ہیں. لاکھوں روپیہ قیمت کا زری کا تیار مال گھر میں رکھا ہے اور لاکھوں روپیہ سے پلائی بورڈ کا نیا کاروبار شروع کیا ہے.
مزید پڑھیں :بریلی: زری کے کاریگروں پر کورونا کا قہر، معاشی بحران سے دوچار
بہرحال مرکزی حکومت کی ایکسپورٹ پالیسی نے زری کاروبار کا سب سے زیادہ نقصان کیا ہے. ایکسپورٹ پالیسی کے معاملے میں غیر تعلیم یافتہ زری کاریگروں میں کچھ کرنے یا کہنے کا مادہ نہیں ہے. لہذا وہ حالات کے مطابق خود کو بازار میں بنائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں. بہرحال تمام نوجوان، تاجر اور صاحب روزگار، اب حکومت کی جانب حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں.