لکھنو: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے یوپی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کی جس میں اس نے مسلمانوں کے بعض رجسٹرڈ اداروں کے ذریعہ حلال سرٹیفکیٹ جاری کرنے کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ بورڈ کے مطابق یہ فیصلہ مذہبی معاملات اور مذہبی آزادی میں مداخلت اور ملک کے مفاد کے منافی ہے۔Body:آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں کہا ہے کہ اسلام نے اپنے متبعین کے لئے کھانے پینے اور رہن سہن کے کچھ آداب اور ضوابط متعین کئے ہیں جس کی پابندی مسلمانوں کے لئے ضروری ہے۔ ایسا ہی معاملہ دیگر مذاہب کا بھی ہے۔ خورد و نوشت کے معاملے میں اسلام کے اصول بہت واضح ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بعض چیزیں مکروہات کے دائرے میں آتی ہیں تو بعض قطعی حرام ہیں جن سے بچنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ مسئلہ صرف ذبیحہ اور غیر ذبیحہ تک محدود نہیں ہے بلکہ بہت ساری مصنوعات ایسی ہوتی ہیں جن میں ان چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے جو اسلام میں حرام کے درجہ میں آتی ہیں جن سے بچنا ہر مسلمان کے لئے بے حد ضروری ہے، جیسے شراب اور سور کا گوشت یا چربی وغیرہ۔ جس طرح مسلمانوں میں حلال اور حرام کی اصطلاح رائج ہے اسی طرح ہندؤں کے یہاں شُدھ اور اشُدھ کی اصطلاح ہے اور دیگر مذاہب میں دیگر اصطلاحات۔
قاسم رسول الیاس نےکہا کہ اسی طرح جو کمپنیاں اس میدان میں کام کررہی ہیں وہ سب حکومت کے ضوابط کے تحت رجسٹرڈ ہیں، اتنا ہی نہیں خود وزارت برائے کامرس نے بھی ایسا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا لازمی کیا ہوا ہے۔ حلال سرٹیفکیٹ صارف کو یہ بتاتا ہے کہ آیا کوئی پروڈکٹ حلال مانے جانے کی ضروریات ومعیارات پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ ہندوستان میں حلال مصنوعات کی تصدیق کے لئے کوئی سرکاری ریگولیٹری ادارہ نہیں ہے بلکہ مختلف حلال سرٹیفیکیشن ایجنسیاں ہیں جو مصنوعات یا کھانے پینے کے اداروں کو حلال سرٹیفکیٹ فراہم کرتی ہیں۔ ان کی قانونی حیثیت مسلم ہے صارفین کے درمیان، ان کے نام کی شناخت کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک میں بھی ریگولیٹرز کی جانب سے پہچان میں مضمر ہے۔