مسلم فریقوں (مسلم پرسنل لا بورڈ و جمیعت علماء) کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے اپنی کل کی بحث کو جاری رکھتے ہوئے سب سے پہلے ہندو مہا سبھا کے دعووں کو رد کرتے ہوئے اپنی دلیلیں پیش کی۔
ڈاکٹر راجیو دھون نے اس دعوے کو چیلنچ کیا جسے ہندو فریق نے اپنی بحث کے دوران رکھا تھا کہ ' مغلوں کے بعد انگریزوں نے ہمارے قانوں( ہندو قانون) کو کالعدم کرکے اپنا قانوں نافذ کردیا اور اب جب کہ ملک آ زاد ہوگیا ہے تو اب ہندو قانون ہی ہم پر نافذ ہوگا۔'
ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ ' اگر ان کی یہ بات مان لی جائے تو پھر پارلیمنٹ نے 1991 میں عبادت گاہوں سے متعلق جو قانون بنایا ہے اس کا وجود ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح زمین بھگوان ہے دلیل مان لی جائے تب بھی اس کی ضرب مذکورہ بالا قانون پر پڑتی ہے۔'
اس کے بعد ڈاکٹر دھون نے نرموہی اکھاڑہ( سوٹ نمبر 3)اور رام للا براجمان ( سوٹ نمبر 4) کے آپسی اختلافات پر بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ' نرموہی اکھاڑے نے پلینٹف ایک اور دو کے ذریعہ داخل کی گئی سوٹ کو ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔
اپنے دلائل میں انھوں نے کہا کہ رام جنم استھان کا بھگوان کے طور پر کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اسی طرح دیو کی نندن اگروال کا کوئی ادھیکار ہی نہیں تھا کہ وہ رام للا براجمان کی طرف سے مقدمہ دائر کرتے۔
اس کے بعد ڈاکٹر دھون نے کہا کہ سنہ 1885 میں نرموہی اکھاڑے کی طرف سے مہنت رگھوبر داس نے جو مقدمہ دائر کیا ہے اس سے نرموہی اکھاڑہ انکار کرتا ہے کہ وہ ہمارا کیس نہیں تھا لیکن الہ آباد ہائی کورٹ میں ان کے ایک گواہ مہنت بھاسکر داس نے یہ اعتراف کیا کہ وہ ہمارا ہی مہنت تھا البتہ انہو ں نے یہ مقدمہ ذاتی حیثیت میں داخل کیا تھا۔
نرموہی اکھاڑے نے اپنے جواب دعوی میں کہا ہے کہ رام للا کا جو تصور ہے وہ بے معنی ہے اور رام جنم بھومی کی کوئی قانونی پوزیشن نہیں ہے اور نرموہی اکھاڑے کے علاوہ مندر بنانے کا اختیار کسی کو نہیں ہے اور سوٹ نمبر 5 صرف ہمارے انتظامی حقوق کو ختم کرنے کے لئے لایا گیا لہذا وہ قابل اعتبار نہیں ہے۔ لہِذا اسے خارج کیا جائے۔
مزید پڑھیں : : ایودھیا کیس: مسلم فریق کی طرف سے بحث کا آغاز