افتخار جاوید نے اعظم خان پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’مدرسہ عالیہ Madarsa Alia سے تعلیم حاصل کرنے والے مولانا محمد علی جوہر کے نام سے یونیورسٹی بناتے ہیں، جیل میں قید اعظم خاں Azam Khan نے اس مدرسہ پر قبضہ جما لیا اور اسے دوسری جگہ صرف دو کمروں میں منتقل کردیا۔
رامپور کے مدرسہ عالیہ Madarsa Alia کا نام تو آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ یہ مدرسہ ایک مرتبہ پھر اس وقت بحث کا موضوع بن گیا، جب اترپردیش مدرسہ بورڈ کے چیئرمین افتخار جاوید نے گذشتہ دنوں اپنے رامپور دورے کے دوران مدرسہ عالیہ کا ذکر کرتے ہوئے سیتاپور جیل میں قید رامپور کے رکن پارلیمان اعظم خاں پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے مدرسہ عالیہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ کھنو پہنچ کر اس مسئلہ پر کاروائ کریں گے۔
کیا واقعی اعظم خاں Azam Khan نے مدرسہ عالیہ پر قبضہ کیا ہے؟ اور کیا یہ سچ ہے کہ مدرسہ عالیہ کی تعلیمی سرگرمیوں کو اعظم خاں نے ختم کیا تھا؟ ان سوالوں کے جواب کے لئے مدرسہ عالیہ کی بازیابی کی تحریک چلانے والے ایک قدیم طالب علم محمد حسین صابری سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ مقامی علما نے مدرسہ عالیہ سے ملحق ایک نجی مدرسہ قائم کرلیا تھا اور تمام توجہ نئے مدرسہ پر مرکوز کی گئی تو مدرسہ عالیہ زوال پذیر ہوگیا۔
وہیں مدرسہ عالیہ کی تاریخ سے متعلق سابق پرنسپل مولانا محمد عبدالسلام خاں کی ایک کتاب جسے رضا لائبریری کی جانب سے 2002 میں شائع کیا گیا تھا کے صفحہ 30 پر مدرسہ عالیہ کے زوال کے اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’مدرسہ عالیہ جو کبھی رامپوری میں تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور ریاست نے اس کو باقی رکھنے کے متعلق معاہدۂ انضمام میں ایک خاص دفعہ اس مضمون کی رکھی تھی کہ مدرسہ عالیہ (اورینٹل کالج) کو جو تقریباً دو سو سال سے رامپوری زندگی کا ڈھانچہ رہا ہے۔