ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران کہا کہ، 'اتر پردیش سرکار قومی سلامتی ایکٹ کا غلط استعمال کر کے اپنا ووٹ بینک مضبوط کر رہی ہے۔ سنہ 2017 میں جب بی جے پی کی سرکار اقتدار میں آئی، اس کے بعد سے ہی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا۔'
انہوں نے کہا کہ، 'حکومت بننے کے بعد سب سے پہلے سلاٹر ہاؤس پر پابندی عائد کر دی گئی تاکہ مسلم سماج کی مالی حالت خراب ہو جائے۔ این ایس اے اس لئے لگایا جاتا ہے تاکہ جلدی راحت نہ مل سکے اور پیروی بھی نہ ہونے پائے۔'
ظفریاب جیلانی نے کہا کہ، 'جن پر قومی سلامتی ایکٹ کے تحت کارروائی ہوتی ہے، انہیں چاہیے کہ وہ فوری طور پر ہائی کورٹ چلے جائیں۔'
انہوں نے بتایا کہ، 'ڈاکٹر کفیل کے معاملے میں جو فیصلہ ہوا ہے، وہ اس کی مثال ہے۔'
رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ، 'پبلک آرڈر کے چیلنج ہونے پر ہی قومی سلامتی ایکٹ لگایا جا سکتا ہے۔ گئو کشی میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ کسی افراد پر این ایس اے لگایا جائے۔'
رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب انہوں نے کہا کہ، 'ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ کرکے یہ کام کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی حکومت اپنا ووٹ بینک بھی اس قانون کے ذریعے مضبوط کر رہی ہے۔ ایسے قانون کے خلاف سماج کے سبھی طبقے کو ایک ساتھ ہو کر مقابلہ کرنا چاہیے۔'
رہائی منچ کے صدر نے کہا کہ، 'کورونا وائرس کی وجہ سے شہریت ترمیمی قانون احتجاج کو ملتوی کر دیا گیا تھا۔ ہمیں پوری امید ہے کہ سرکار اس معاملے میں بیک فوٹپ پر ہے۔ معلوم رہے کہ جن 13 افراد پر این ایس اے لگایا گیا ہے، ان پر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے کا الزام ہے۔'
مزید پڑھیں:
قابل ذکر ہے کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری (ہوم) اونیش اوستھی کے ایک بیان کے مطابق رواں برس 19 اگست تک یو پی پولیس نے ریاست میں 139 افراد کے خلاف این ایس اے کے تحت کاروائی کی ہے۔ ان میں سے 76 لوگوں پر گئوکشی کا الزام ہے۔ ساتھ ہی 13 افراد پر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔