ریاست اتر پردیش کے ضلع جونپور میں سلطنت مغلیہ اور سلطنت شرقیہ دور کی بے شمار تاریخی عمارتیں آج بھی اپنی اسی خوبصورتی کے ساتھ چمک و دمک رہی ہیں جن کا کوئی ثانی نہیں۔
شرقی دور کی عمارتیں جو امتدادِ زمانہ کے بعد بھی اس وقت جونپور میں اپنی اسی شان وشوکت کے ساتھ موجود ہیں اس میں سب سے زیادہ اہم اور قدیم اٹالا مسجد ہے۔ یہ مسجد شہر کے محلہ رضوی خاں میں واقع ہے۔ اس مسجد کو ابراہیم شاہ شرقی نے 1408 میں تعمیر کرایا تھا۔
حالانکہ اس مسجد کی بنیاد اور ابتدائی تعمیرات کا کام فیروز شاہ تغلق نے 1364 یا 1376 کے درمیان میں کیا تھا. مگر درمیان میں خواجہ جہاں، خان جہاں، فتح خان جو سلطنت کے اہم ستون تھے ان کی موت نے ملک کے انتظام کو درہم برہم کر دیا تھا اور جدید تعمیرات کا حوصلہ بھی ختم کر دیا تھا۔
اور 1390 میں فیروز شاہ تغلق کے انتقال کے بعد سلطنت تغلقیہ کا شیرازہ بھی چند ہی سال کے اندر بکھر گیا یہاں تک کہ سلطنت تغلقیہ کا آفتاب ہی غروب ہوگیا۔
جونپور: دور شرقی میں تعمیر اٹالا مسجد خوبصورتی کا شاہکار شہزادگان تعلق کو آپسی خانہ جنگیوں اور ملک کے اندر پھیلے ہوئے شورس و فساد نے اتنا موقع نہ دیا کہ وہ تعمیری کام کو کر سکیں اور یہی وجہ تھی کہ یہ مسجد ایک مدت دراز تک یوں ہی پڑی رہی آخرکار ابراہیم شاہ شرقی نے ایک نئے حوصلے اور جدید تعمیراتی اور فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے طرز کی انوکھی اور فن کا ایک شاہکار بناکر کھڑا کردیا جس کے نقشہ اور طرز کا جواب پورے ہندوپاک کیا پوری دنیا میں نہیں ملتا ہے۔شرقی دور کی عمارتوں میں سے زیادہ کوئی اور عمارت اتنی حسین اور مضبوط نہیں ہے جس میں زیادہ ایسی نئی۔نئی باتیں مل سکے جو فنی اور تعمیری خوبیوں کی بنا پر اس سے اچھا نمونہ پیش کر سکے یہ مسجد شرقی فن تعمیر کے آغاز اور جونپور کے خاص طرز کا نمونہ بھی ہے اور شرقی طرز تعمیر کا اولین اور بہترین شاہکار ہے۔اس مسجد کا ایک چبوترہ ہے جس کے تین اطراف دالانیں ہیں جو دو منزلہ ہیں۔ ہر رخ کے درمیان تین پھاٹک ہیں اس کی چھت کا درمیانی حصہ محراب سے گھرا ہوا ہے جو خالص مصری طرز کا ہے۔ اس کا چوکور صحن کا قطر 170 فٹ ہے اور چاروں طرف مختلف حصے ہیں۔ تین طرف دالان نما کمرے ہیں اور مغرب کی طرف خاص عبادت گاہ کا ہال ہے۔ باہری حصے میں برآمدے ہیں جو اس وقت طلباء کے رہنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ مسجد کا گھیرا 258 فٹ ہے اندر سے دیکھنے میں اس کے تین رخ نظر آتے ہیں اور تینوں رخ کے سامنے پھاٹک ہیں۔
اس مسجد میں عورتوں کا بھی خاص لحاظ رکھا گیا ہے جو شرقی طرز تعمیر کی ایک انفرادی خصوصیت ہے۔
چنانچہ اس کے اتر دکھن کے گوشوں پر ایک بہت ہی وسیع ہال ہے جو دوسری منزل پر ہے اور اس کی دیواروں کو جھالیوں سے گھیر دیا گیا ہے تاکہ ہوا اور روشنی اس پر پہنچتی رہے یہ جالیاں بڑی مستحکم اور حسین ہیں چھت کے پتھروں میں بھی طرح۔طرح کے نقش و نگار بنے ہوئے ہیں۔
عورتوں کے داخل ہونے کا اتری دکھنی پر راستے باہر سے الگ ہے اگر اس مسجد کے وسط میں کوئی شخص کھڑا ہو کر اس کے مرکزی محراب کو دیکھے تو اس کے ذہن میں مصری طرز تعمیر کا پورا تصور پیدا ہو جاتا ہے۔
مرکزی محراب 100 فٹ سے زیادہ اونچا ہے۔ اس کے گنبد کی اونچائی 75 فٹ ہے اور گھیرا 55 فٹ ایک اہمیت رکھتا ہے۔ یہ گنبد اندر سے 57 فٹ بلند ہے اور 30+35 فٹ مربع میں ہے۔ ہال بہت ہی وسیع اور کشادہ ہے سولہ محرابیں زمین سے ملی ہوئی ہیں جو راستے کا بھی کام دیتی ہیں۔ اور اس ہال کو کافی حسین بنا دیا ہے۔
محرابیں نقش و نگار اور بیل بوٹوں کے کام سے سجی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد 20 فٹ کی بلندی پر ہوا روشنی اور خوبصورتی کے لیے آٹھ اور محرابیں بنائی گئی ہیں ان خوشنما محرابوں اور سنگ سیاہ کی تزئین کاری نے اس گنبد اور ہال کو جو حسن و جمال بخشا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
مسجد کا صحن 157 فٹ مربع میں ہے مغرب طرف خاص نماز کے لیے دالان نما عمارت ہے جس پر تین بڑے۔بڑے گنبد ہیں جو ستونوں پر کھڑے ہیں ان گنبدوں کو چھپانے کے لئے گنبد کے ہر رخ پر محرابیں بنی ہوئی ہیں جن کے اوپر مصری طرز کے بیل بوٹے ہیں دائیں۔بائیں دو چھوٹی۔چھوٹی اندر محرابیں ہیں جو ان کے چہروں کے حسن میں اضافہ کرتی ہیں اندرونی حصوں میں پورب اتر دکھن طرف قطاروں میں دالانیں ہے جس کا سلسلہ ایک پتھر کی پتلی سی دیوار کھڑی کرکے باہر تک چلا آیا ہے تین پھاٹک ہیں اس میں سے اتر و دکھن کے پھاٹک گنبد بنے ہوئے ہیں البتہ پورب پر کوئی گنبد نہیں ہے سکندر لودی نے اس گیٹ کو بھی مسمار کرادیا تھا جس کو بعد میں درست کرایا گیا اور تعمیر میں آسانی کا خیال کرتے ہوئے گنبد کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔
اس مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں بہت سے کاریگر تغلق آباد دہلی سے بلائے گئے اور کچھ کاریگر جونپور سے دہلی ٹرینگ حاصل کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے بہرحال جونپور کے کاریگروں کا اس تعمیر میں زبردست ہاتھ ہے سنگ تراشی میں جونپور کے ہندو کاریگروں نے بڑی دلچسپی سے کام لیا تھا یہ مسجد ہندو مسلم فن تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔
اس مسجد میں سب سے زیادہ حسین اور متاثر کرنے والا اس کا مرکزی محراب ہے۔ یہ نہایت ہی پر شکوہ اور رعب و جلال سے بھر پور ہے جس کو دائیں۔بائیں کے کشادہ اور حسین ستون اٹھائے ہوئے ہیں۔ اس کے حسن کا انحصار طرزِ تعمیر وضع قطع صناعی نقاشی نقش و نگار مصری طرز کے بیلوں خوشنما گلاب اور کنول کے پھولوں پر ہے نہ کہ اور مسجدوں کی طرح بیش بہا سنگ مرمر اور خیرہ کن رنگ و روغن پر اس کا تعلق محض چمک دمک پر ہی نہیں ہے۔ بلکہ کمال تو یہ ہیکہ خالص معمولی پتھر چونے گارے اور کنکر و اینٹ مٹی سے بے حد اچھوتے پن کا مظاہرہ کیا گیا ہے جبکہ یہ مسجد شرقی طرز تعمیر کی آغاز تھی۔
اس کے اندرونی محراب پر خط طغری میں ایک کتبہ ہے جس کے حروف بہت ہی فنکارانہ اور ابھرے ہوئے ہیں جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم آیت الکرسی اور وہ حدیث کندہ ہے جو مساجد کے فضائل میں ہے۔ محراب کے اندر بھی آیت الکرسی سنگ موسی پر ابھری ہوئی ہے ایک اور لکھاوٹ سنگ سیاہ میں ابھری ہے جو سطح زمین سے 40 فٹ کی بلندی پر ہے اس محراب پر تین محرابی طاقوں میں لفظ اللہ بھرا ہوا ہے۔
عورتوں کی نماز کے لیے جنوب و شمال دونوں جانب دوسری منزل میں جالیوں اور خوشنما جھنجھریوں سے مرصع دو بڑے وسیع ہال کو نکالا گیا ہے۔ جس کا راستہ بھی اندر و باہر سے ہے اور یہ بات جونپور کی اٹالا مسجد کے لیے مخصوص ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے مسجد کمیٹی کے صدر جاوید محمود نے بتایا کہ اس مسجد میں کل 66 دکانیں ہیں ان کے کرائے سے مسجد کے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں اور ہر تین سال پر صدر کا انتخاب کیا جاتا یے اس مسجد میں پانچ وقت کی نماز با جماعت ادا کی جاتی ہے جمعہ کے دن کثیر تعداد میں مسلمان نماز ادا کرتے ہیں مگر ابھی کورونا وباء کی وجہ سے نہیں ہو رہی ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے مقامی مظہر آصف نے بتایا کہ 1359 میں جب فیروز شاہ تغلق نے اس شہر کو آباد کیا تو کچھ سالوں کے بعد 1376 میں اس مسجد کی بنیاد رکھی اس کے بعد شرقی سلطنت وجود میں آئی اس نے اس مسجد کو مکمل کرایا اسی مسجد میں ہندوستان کے نامور بادشاہ شیر شاہ سوری اسی مسجد میں رہائش پذیر تھے اور یہیں رہکر تعلیم بھی حاصل کی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ شرقی بادشاہوں کی اس بے مثال یادگار کی اہل جونپور نے قدردانی نہ کی حالانکہ ایسی عظیم و پرشکوہ اور نادر المثال مسجد جو فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے اور جس کا جواب پوری دنیا میں نہیں ہیں اگر مسلمانان جونپور محسوس کرتے تو آج اس مسجد کا ایک دوسرا نقشہ ہوتا۔