ریاست اترپردیش کے رامپور کے گاؤں نگلہ میں کمہاروں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ جن کی ہنرمندی کے شاہکار مٹی کے برتنوں کی صورت میں سڑک کے فٹ پاتھوں پر بکتے نظر آتے ہیں۔
مٹی سے مختلف اشقال کے برتن جیسے صراحیاں، پانی کے گھڑے اور مٹکے، کلڑ، بچوں کے کھلونے، گلک اور دیگر ضروریات کے سامان کو چاک پر ڈھالا جاتا ہے۔
دیہاتوں میں مٹی کے برتن بنانے والے کاریگروں کا کہنا ہے کہ، 'مٹی سے برتن تیار کرنے میں نہ صرف کافی محنت لگتی ہے، بلکہ کام کے دوران پرسکون بھی رہنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کام کے دوران کمہار کی انگلیوں اور آنکھوں میں پیار، محبت اور شفقت نظر آتی ہے۔'
کمہاروں کا کہنا ہے کہ، 'ایک برتن آپ کے ہاتھوں تک 50 سے زائد مراحل سے گزر کر پہنچتا ہے۔'
مٹی کے برتن بنانے کے لیے کمہار ایک خاص مٹی جسے شمالی ہند میں چکنی مٹی کہا جاتا ہے، استعمال کرتے ہیں۔ اس مٹی کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس میں نہ ریت ہوتی ہے اور نہ ہی دوسرے فاضل مادے۔
اچھے برتنوں کے لیے ایسی ہی صاف ستھری مٹی درکار ہوتی ہے۔ کمہار یہ مٹی دریا کے کنارون سے لاتے ہیں۔ حالانکہ نگلہ گاؤں کے کمہاروں کا کہنا ہے کہ، 'پولیس ان کو مٹی لانے میں بھی بہت پریشان کرتی ہے۔'
برتن بنانے کے لئے مٹی کو گوندھ کر چاک پر چڑھایا جاتا ہے۔ جب برتن چاک پر تیار ہو جاتا ہے تو اسے ایک دھاگے سے کاٹا جاتا ہے۔ جس کو کمہار شنوٹ کہتے ہیں۔
اس مرحلے کو مکمل ہونے کے بعد برتوں کو سکھانے کے لئے مزید سیدھا کیا جاتا ہے۔ یوں مٹی کے برتن مختلف مراحل سے گزر کر لوگوں کے ہاتھوں اور گھروں تک پہنچتے ہیں۔ ان برتنوں میں مٹکے اور گھڑے عام ہیں۔
اکثر گھروں میں ان میں پینے کا پانی بھرا جاتا ہے۔ صدیوں قدیم اس ہنر سے وابستہ کمہار، نسل در نسل وابستہ ہیں اور اپنے فن کو اپنی اولاد کو منتقل کرتے ہیں۔