علی گڑھ:مرکزی حکومت کی جانب سے اُن یونیورسٹیز کے ایکٹ میں ترمیم کی کوشش کی جا رہی ہے، جن یونیورسٹیز کے ایکٹ آزادی سے قبل کے ہیں۔ اس فہرست میں بنارس ہندو یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شامل ہیں۔ اسی ضمن میں اے ایم یو کو وزارت تعلیم کی جانب سے گزشتہ برس 7 نومبر 2022 کو ایک خط موصول ہوا تھا، جس کا جواب 28 نومبر کو ہی دے دیا تھا، باوجود اس کے ایک بار پھر دو مئی کو وزارت تعلیم کی جانب سے اے ایم یو انتظامیہ کو ایک ای میل موصول ہوا ہے۔
وزارت تعلیم کی جانب سے اے ایم یو انتظامیہ کو ای میل موصول ہونے کے بعد وائس چانسلر نے تمام فیکلٹیز کے ڈین، اسٹوڈنٹز ویلفیئر، کالجز کے پرنسپلز اور یونیورسٹی کے دیگر ذمہ داران سے تفصیلی مشاورت کے بعد ایک ہائی پاور سات رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، جس میں درج ذیل افراد شامل ہیں:
1۔ پروفیسر ڈی پی اگروال سابق چیئرمین، یو پی ایس سی
2۔ پروفیسر اقبال علی خان، محکمہ قانون، اے ایم یو
3۔ پروفیسر مرزا اسمر بیگ، ڈین، فیکلٹی آف سوشل سائنسز، اے ایم یو
4۔ پروفیسر ایم ایچ ڈی اشرف، ڈین، فیکلٹی آف سائنس، اے ایم یو
5۔ڈاکٹر مجیب اللہ زبیری، ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ، اے ایم یو
6۔ ڈاکٹر محمد شاہد (ریٹائرڈ) ڈپٹی ڈائریکٹر، سرسید اکیڈمی، اے ایم یو
7۔ رجسٹرار، اے ایم یو (کنوینر)
کمیٹی کے رکن اور سر سید اکیدمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس کی دو میٹنگ ہو گئی ہے اور ابھی رپورٹ جمع کرنا باقی ہے۔ یونیورسٹی کیمپس میں چرچہ یہ بھی کی جا رہی ہے کہ مرکزی حکومت نے خاموشی سے اے ایم یو کے 1920 ایکٹ کو ختم کردیا ہے، بس اعلان کرنا باقی ہے۔