شیخ عبداللہ جیسی قد آور اور دیدہ ور شخصیات کے لئے ہی علامہ اقبال نے کہا ہے کہ 'بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا '۔ سر سید احمد خاں کے محبوب ساگرد شیخ عبداللہ نے تعلیم نسواں کے فروغ میں نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔ ساتھ ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ایم اے یو کالج کے انتظامی امور اور علی گڑھ تحریک کے لیے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
1888 میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے لاہور اجلاس میں شیخ عبداللہ کو پہلی بار سر سید احمد خان کو دیکھنے کا موقع ملا تھا اور وہ تہذیب الاخلاق میں سر سید کے مضامین بھی پڑھ چکے تھے اور غائبانہ طور پر سر سید سے بہت متاثر تھے۔
علی گڑھ میں گرلز اسکول (زنانہ مدرسہ) قائم کرنے کے لیے شیخ عبداللہ نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں تجاویز پاس کرائیں۔ 1904 میں فیمیل ایجوکیشن ایسوسی ایشن تشکیل دی اور گرلز اسکول کھولنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
مسلسل جدوجہد اور سخت مخالفتوں سے گزر کر شیخ عبداللہ نے نومبر 1906 کو علی گڑھ شہر ٹن ٹن پاڑا (محلہ بالا ئے قلعہ) کے ایک چھوٹے سے مکان میں (دو روپے کرائے پر مکان لیا گیا) گرلس اسکول (زنانہ مدرسہ) قائم کر دیا۔
بیگم بھوپال نے اس کے لیے سو روپے ماہانہ عطیہ منظور کیا اور لیفٹیننٹ گورنر یوپی نے مدرسہ کو گرانٹ کی منظوری دی۔ شیخ عبداللہ کے بیان کے مطابق پہلے دن 18 لڑکیوں نے داخلہ لیا۔ وحید جہاں بیگم عرف بیگم عبداللہ کی زیر نگرانی اسکول میں لڑکیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ جگہ کم پڑنے کی وجہ سے محلہ بنی اسرائیل میں ایک کشادہ مکان لے کر گرلز اسکول کو 1910 میں یہاں منتقل کر دیا گیا۔
آٹھ نومبر 1911 کو قائم مقام لیفٹیننٹ گورنر پورٹر کی اہلیہ لیڈی ایل اے ایس پورٹر نے گلس اسکول کی میرس روڈ واقع (نانک رائے باغ) آراضی پر بورڈنگ ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا۔ سر سید کی طرح شیخ عبداللہ بھی طالبات کی تعلیم کے ساتھ تربیت کے حامی تھے۔