علی گڑھ:قومی اقلیتی کمیشن کے سابق نائب چیئرمین عاطف رشید نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ یونیورسٹی میں موجودہ انٹرنل طلباء کے پچاس فیصد ریزرویشن میں نصف کوٹہ مسلم پسماندہ طلبہ کے لیے مختص کیا جائے۔ اس خط کے بعد اے ایم یو طلبا کا کہنا ہے کہ ملک کی جن یونیورسٹیز میں مسلم طلبا کے لیے ریزرویشن نہیں ہے، وہاں کے لیے مطالبہ کیا جائے نہ کہ جن یونیورسٹیز میں پہلے سے ریزرویشن ہے۔ یہ مسلمانوں کو آپس میں تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔ Former Vice President of National Minorities Commission Atif Rashid
اے ایم یو میں ریزرویشن کا معاملہ واضح رہے کہ قومی اقلیتی کمیشن کے سابق نائب چیئرمین عاطف رشید نے چند روز قبل جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامعہ ہمدرد اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلرز کو مسلم پسماندہ طلبہ کے لیے ریزرویشن سے متعلق ایک خط اور ایک بیان جاری کیا تھا جس میں مطالبہ کیا تھا کہ ملک کے اقلیتی اداروں میں نافذ انٹرنل ریزرویشن میں سے مسلم پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے اسٹوڈنٹس کو یونیورسٹی میں داخلہ کے لیے 50 فیصد ریزرویشن دیا جائے۔
قومی اقلیتی کمیشن کے سابق نائب صدر عاطف رشید کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو خط عاطف رشید کے جاری بیان کے مطابق مسلم پسماندہ طبقہ تعلیم اور روزگار کے میدان میں کافی پیچھے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی حکومت کے فنڈ سے جو یونیورسٹیز جاری ہیں اور جہاں پر پہلے سے کہیں انٹرنل ریزرویشن کے نام پر کہیں مسلم ریزرویشن کے نام سے نشستیں مختص ہیں ان میں سے 50 فیصد ریزرویشن مسلم پسماندہ کے لیے دی جائے۔ عاطف رشید نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے دنوں میں اسی تعلیمی سال سے یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز مسلم پسماندہ کے لیے پچاس فیصد ریزرویشن دیں گے۔
وہیں دوسری جانب مسلم پسماندہ کے لیے پچاس فیصد ریزرویشن کے مطالبہ سے متعلق عاطف رشید کی جانب سے جاری بیان اور خط پر اے ایم یو طلباء کا کہنا ہے ملک کے جن اقلیتی اداروں میں پہلے سے مسلم ریزرویشن موجود ہے ان یونیورسٹیز میں مسلم پسماندہ طلباء کے نام پر ریزرویشن کا مطالبہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس سے مسلمان آپس میں تقسیم ہوجائیں گے۔ اے ایم یو طلباء نے عاطف رشید کے خط اور بیان کو لوگوں میں تفریق پیدا کرنے والی چیز بتایا۔ طلبہ نے کہا مسلمانوں کی تعلیم اور ان کے ریزرویشن کو بھی سیاست کے چشمے سے دیکھا جا رہا ہے۔ تعلیم اور تربیت میں ذات نہیں دیکھی جاتی، ایک جانب تو ذات سے ہٹ کر آگے بڑھنے کی بات کہی جاتی ہے اور وہیں دوسری جانب ذات کے نام پر ہی ریزرویشن کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ مسلم پسماندہ کے نام سے ریزرویشن سے اقلیت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، مسلم آپس میں تقسیم ہوجائیں گے اس لیے یہ طریقہ غلط ہے۔
طلبا کا مزید کہنا ہے کہ یہ ایک اچھی بات ہے کہ آپ مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیم فراہم کرانا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے ریزرویشن دینا چاہتے ہیں لیکن اگر موجودہ مسلم ریزرویشن میں اس طرح مسلم پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے اسٹوڈنٹس کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ کریں گے تو یہ مسلمانوں کو آپس میں تقسیم کرنے والی بات ہوگی جو مناسب نہیں ہے۔ عاطف رشید سے مطالبہ کرتے ہوئے طلبا نے کہا کہ انہیں چاہیے کہ وہ ملک کی ان یونیورسٹیز میں مسلم ریزرویشن کا مطالبہ کریں جہاں پر مسلم ریزرویشن ہے ہی نہیں۔
واضح رہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا معاملہ ابھی عدالت میں زیر بحث ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلے کے لیے پچاس فیصد انٹرنل طلبا کا ریزرویشن ہے جس میں دیگر مذاہب بھی شامل ہیں جو ذات مذاہب سے پاک ہے۔ اطلاع کے مطابق فی الحال یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے عاطف رشید کے خط سے متعلق کسی طرح کا کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔