ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت میں شافع قدوائی نے موجودہ حالات کے تناظر میں کہا کہ گاندھی جی کی اصل تعلیم یہی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنا سمجھے اور جو آپ چاہتے ہیں کہ دوسرا انسان آپ کے ساتھ سلوک کرے ویسا آپ بھی دوسروں کے ساتھ سلوک کریں۔ وسیع تر انسانی کائنات میں سب برابر کا حصہ ہے۔
قدوائی کا مزید کہنا ہے کہ جمہوری اقدار میں صرف ایسا نہ ہو کہ جو اکثر یتی فرقے کے لوگوں کی ہی بات چلے بلکہ اس میں سب فرقہ کے لوگ شامل ہوں اور سب مل جل کے زندگی گزاریں۔
قدوائی کا کہنا ہے کہ تکثیری سماج کا جو نظریہ ہے جس کو ہم پلورل سوسائٹی کہتے ہیں گاندھی جی نے اصل میں دکھلایا اور اس پر عمل کرکے بتایا کہ کیسے ایک ایسا معاشرہ جس میں مختلف زبان بولنے والے مختلف مذہب کے پیروکار رہتے ہیں وہ کیسے رہیں گے۔
آج کا جو زمانہ ہے جہاں صرف نفرت کی زبان سمجھی جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں نفرت، جنگ، تشدد ہے اور گاندھی جی اس کے بالکل خلاف تھے۔
قدوائی نے یہ بھی بتایا کہ دونوں جنگ عظیم کے بعد گاندھی جی نے یہ ثابت کرکے دکھایا کہ آپ عدم تشدد کے ذریعے کیسے اپنی بات منوا سکتے ہیں۔
عدم تشدد میں تشدد سے زیادہ طاقت ہوتی ہے، جو تشدد ہے وہ ایک طرح کی بے بسی اور لاچاری ہے جب آپ کچھ نہیں کرپاتے ہیں تو آپ کسی کو مار دیں گے یا قتل کردیں گے لیکن اس کے دل کو جیتنا اور اس کے دل کو بدلنا بہت مشکل کام ہے جو گاندھی جی نے اپنی زندگی میں ہمیں کر کے دکھایا ہے۔
شافع قدوائی نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب جو ہمارے سامنے دنیا آئی ہے نیا ہندوستان آیا، نقشہ آیا ہے انھیں لگتا کہ گاندھی جی کہ بہت سے اقدار کو ہم نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بلکہ یہ حکومت کا جو اقتدار کا حصہ ہے وہ روز بروز محدود تر ہوتا جا رہا ہے اور تمام لوگوں کو سماجی، مساوی، معاشی حقوق نہیں مل پائے ہیں۔
شافع قدوائی نے آخر میں یہ کہا کہ گاندھی جی کا خواب تھا کہ ایک ایسا بھارت جہاں تمام لوگ ایک ساتھ رہیں گے امن سے رہیں گے ایک خوشحالی کا راستہ تھا۔
اب ملک ایسا لگتا ہے گاندھی جی کے راستے سے بہت دور نکل آیا ہے اب ایک موقع ہے کہ جب گاندھی جی کی 150 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے تو اب یہ ضروری ہے کہ گاندھی جی کو ہم پھر سے یاد کریں۔