اردو

urdu

ETV Bharat / state

AMU Centenary Gate Stone Fallen: اے ایم یو 'باب صدی' کا گرا پتھر، حادثہ ہوتے ہوتے ٹلا

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی AMU کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر نو تعمیر شدہ 'باب صدی' CENTENARY GATE کا سفید رنگ کا پتھر تقریباً 50 فٹ کی اونچائی سے زمین پر اچانک گر گیا، گرنے والی جگہ کے قریب ہی باب صدی سے یونیورسٹی کے اندر جانے کا گیٹ ہے جہاں سے اکثر لوگ اندر داخل ہوتے ہیں۔

اے ایم یو 'باب صدی' کا گرا پتھر، حادثہ ہوتے ہوتے ٹلا
اے ایم یو 'باب صدی' کا گرا پتھر، حادثہ ہوتے ہوتے ٹلا

By

Published : Mar 23, 2022, 4:55 PM IST

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی Aligarh Muslim University کا قیام 1920 میں عمل میں آیا، دو برس قبل ہی اے ایم یو نے اپنے قیام کے سو سالہ جشن کے موقع پر موجود وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کی اجازت سے علیگ برادری نے تحفہ کے طور پر یونیورسٹی کے چنگی گیٹ کی تعمیر شروع کی تھی جس کا نام 'سینٹری گیٹ' رکھا گیا۔ 17 اکتوبر 2020 کو باب صدی گیٹ کا افتتاح یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین نے کیا تھا جس کا سفید رنگ کا پتھر تقریباً 50 فٹ کی اونچائی سے زمین پر اچانک گر گیا، گرنے والی جگہ کے قریب ہی باب صدی سے یونیورسٹی کے اندر جانے کا گیٹ ہے جہاں سے اکثر لوگ اندر داخل ہوتے ہیں۔

اے ایم یو 'باب صدی' کا گرا پتھر، حادثہ ہوتے ہوتے ٹلا

واضح رہے کہ باب صدی گیٹ تعمیر کے وقت سے ہی سرخیوں میں رہا ہے، پہلے گیٹ پر اردو میں نام نہیں لکھے ہونے سے متعلق ای ٹی بھارت نے خبر شائع کی جس کے بعد اردو میں نام لکھا گیا، پھر اچانک لوہے کا گیٹ گرنے سے اسے بمشکل ویلڈنگ کرکے روکا گیا تھا۔ باب صدی کا پتھر اچانک گر جانے سے متعلق یونیورسٹی طلبہ رہنما محمد عارف تیاگی نے بتایا کہ ایک بہت بڑا حادثہ ہونے سے ٹلا، اچانک ایک بڑا پتھر پچاس فٹ کی اونچائی سے گرنے سے ایک بڑا حادثہ ہوسکتا تھا۔

وہیں اس تعلق سے طلبہ رہنما نے یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ گیٹ کی تعمیر میں خرچ ہوئے بجٹ اور اس پروجیکٹ میں شامل تمام لوگوں سے سوال کیے جانے چاہئیں۔ اطلاع کے مطابق باب صدی کی تعمیر کا بجٹ پہلے 80 لاکھ تھا جس کو بعد میں بڑھا کر تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ کر دیا گیا۔ گیٹ کی تعمیر کو ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے کہ گیٹ پر لگے پتھر گرنے شروع ہوگئے، جس سے ایسا گمان ہوتا ہے کہ اس کی تعمیر میں بلڈنگ کے اس مٹیریل کا استعمال نہیں کیا گیا جو ہونا چاہیے تھا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details