شہریت ترمیمی قانون کے خلاف گزشتہ برس آج ہی کے دن یعنی 15 دسمبر کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں چل رہے احتجاج کے دوران طلبہ اور پولیس کے درمیان تشدد میں تقریباً 50 سے زیادہ طلبہ اور کچھ پولیس والے بھی زخمی ہوئے، جس میں کچھ طلبہ شدید زخمی بھی ہوئے اور کچھ طلبہ کو حراست میں بھی لیا گیا۔ جس کا ذمہ دار متاثرین طلبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کو بتایا۔
گزشتہ برس 15 دسمبر کی شب میں پیش آئے واقعے میں شدید زخمی ہوئے اے ایم یو کے طالب علم محمد ناصر نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ، '15 دسمبر کی شب میں یونیورسٹی کے مہمان خانہ نمبر 3 میں موجود تھا، وہاں پر اچانک دھماکہ ہوا جس سے میرا ہاتھ پھٹ گیا اور آج بھی میرا ہاتھ مکمل طور سے صحیح نہیں ہوا صرف 10 فیصد ہی میرا ہاتھ کام کرتا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ، 'صرف میں ہی جانتا ہوں کہ 15 دسمبر کے تشدد سے میں کتنا متاثر ہوا، میرے خاندان والے ابھی تک پریشان ہے، میری پڑھائی میری ذاتی زندگی، میرا سب کچھ متاثر ہوا۔
جب میرے ہاتھ میں دھماکا ہوا تو میں بے ہوش ہو گیا تھا مجھے اے ایم یو میڈیکل کالج لے جایا گیا، جہاں میں تقریباً دس دن تک داخل رہا۔'
محمد ناصر نے مزید بتایا کہ، 'گزشتہ برس 15 دسمبر کی شب اور آج کی 15 دسمبر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، آج بھی وہی صورتحال ہے صرف یونیورسٹی طلبہ کو تکلیف ہوئی۔ ظاہر سی بات ہے یونیورسٹی انتظامیہ کی ناکامی تھی، یونیورسٹی انتظامیہ اس میں شامل تھا۔'
اے ایم یو کے سابق طالب علم اور طلباء رہنما محمد عامر منٹو نے بتایا کہ، '15 دسمبر ہمارے لئے یوم سیاہ ہے۔ گزشتہ برس 15 دسمبر کی شب میں یونیورسٹی انتظامیہ نے طلباء کے ساتھ جو کیا وہ کوئی والدین بھی اپنے بچوں کے ساتھ نہیں کر سکتا۔یونیورسٹی باب سید اور انتظامیہ بلاک کے گیٹ کے درمیان جو جگہ ہے وہ نو مینس لینڈ (No man's land) بنی ہوئی تھی، جگہ جگہ بریکیٹ لگے ہوئے تھے، فورس تعینات تھی اگر پولیس اس جگہ نہ پہنچتی تو شاید تشدد نہ ہوتا۔ بنا کسی ضرورت کے فورس کیمپس میں داخل ہوا۔'
انہوں نے کہا کہ، 'ہائی کورٹ نے بھی غیر قانونی بول دیا، ہمارے سمجھ میں نہیں آتا جس طرح کی ویڈیو ہم نے دیکھی جس میں کہاں گیا "مارو *** کو، سیدھا مارو" سیدھا تو مجرموں کو مارا جاتا ہے طلباء کو نہیں۔ گالیاں بھی دی گئی۔'
ان کا کہنا ہے کہ، 'اس کا مطلب دماغ میں کچھ نہ کچھ تھا، نفرت تھی طلبہ کے خلاف جو اس روز نکلی۔ حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے پولیس کو کیمپس میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی، لیکن سب سے بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ یونیورسٹی رجسٹرار کی جانب سے جو خط لکھا گیا تھا وہ 15 دسمبر کا ہے اور 16 دسمبر کو علیگڑھ ایس ایس پی نے اس کو حاصل کیا تو ایک دن قبل کیسے پولیس کیمپس میں داخل ہوئی۔'
عامر منٹو نے مزید بتایا کہ، 'شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جو غم اور غصہ ناراضگی تھی، وہ 15 دسمبر کی شب میں دیکھی۔ جو مار رہا ہے وہ ذمہ دار ہوگا اب تو ہائی کورٹ نے بھی بول دیا غیر قانونی کارروائی ہوئی جو فورس نے کی۔ لیکن اخلاقی بنیاد پر میں سمجھتا ہوں یونیورسٹی انتظامیہ ذمہ دار ہے، ہائی کورٹ نے بھی کہا ہے یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبہ کے درمیان خلاء نظر آتا ہے۔'
مزید پڑھیں:
محمد عامر منٹو نے مزید کہا کہ، 'مجھے حراست میں لیا گیا کیونکہ میرے اوپر الزامات لگائے گئے جو جعلی الزامات ہیں، میں چیلنج کرتا ہوں علی گڑھ ضلع انتظامیہ کو کے جتنے بھی الزامات ہیں صرف ایک ثبوت دکھا دیں میرے اور میری پرچھائی کی موجودگی کا۔ میں دعویٰ کرتا ہوں علی گڑھ چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔'