اردو

urdu

Uttar Pradesh Assembly Election: چھٹے مرحلے کی تیاریاں مکمل، کل ووٹنگ

By

Published : Mar 2, 2022, 7:59 PM IST

اتر پردیش اسمبلی انتخابات Uttar Pradesh Assembly Election کے لیے سات مراحل میں پولنگ ہوگی جس کے تحت چھٹے مرحلے میں کل 3 مارچ کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ چھٹے مرحلے میں 10 اضلاع کی 57 سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی جس کے لیے 676 امیدوار میدان میں ہیں۔ پولنگ کا عمل صبح 7 بجے شروع ہوگا۔

یوپی الیکشن کے لیے چھٹے مرحلے کی پولنگ
یوپی الیکشن کے لیے چھٹے مرحلے کی پولنگ

اترپردیش میں چھٹے مرحلے کے تحت پوروانچل خطے کی 10 اضلاع کی 57 سیٹوں پر ووٹنگ کے لیے تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ جمعرات کو صبح 7 بجے تا شام 6 بجے تک ووٹ ڈالے جائیں گے۔ پُرامن و غیرجانبدارانہ الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن نے سکیورٹی کے پختہ انتظامات کیے ہیں۔

جن اضلاع میں کل ووٹ ڈالے جائیں گے ان میں امبیڈکر نگر، بلرامپور، سدھارتھ نگر، بستی، سنت کبیر نگر، مہاراج گنج، گورکھپور، کُشی نگر، دیوریا اور بلیا شامل ہیں۔

چیف الیکشن افسر اجے کمار شکلا نے بتایا کہ اس مرحلے میں تقریباً 2 کروڑ 14 لاکھ رائے دہندگان اپنا جمہوری حق استعمال کریں گے۔ ان میں تقریباً ایک کروڑ 15 لاکھ مَرد اور ایک کروڑ خواتین ووٹرز 676 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

اس مرحلے میں 65 خواتین امیدوار بھی انتخابی میدان میں ہیں۔ چیف الیکشن افسر نے بتایا کہ اس مرحلے میں رائے دہندگان 13 ہزار 936 پولنگ مراکز کے 25 ہزار 326 پولنگ بوتھز پر اپنا حق رائے دہی کا استعمال کرسکیں گے۔

وہیں اڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس(لاء اینڈ آرڈر) پرشانت کمار نے کہا مجموعی طور سے 9 اسمبلی حلقے بشمول گورکھپور صدر، بانسی، اٹوا، ڈومریا گنج، بلیا صدر، پھیپھنا، بیریا، سکندر پور اور بانسڈیہہ کو حساس اسمبلی حلقوں کے زمرے میں رکھا گیا ہے اسی طرح سے اس مرحلے میں 824 بستیاں ایسی نشان زدہ کی گئی ہیں جہاں پر ناخشگوار واقعات پیش آسکتے ہیں وہیں 2962 پولنگ بوتھ کو کافی حساس زمرے میں رکھا گیا ہے۔

پرشانت کمار نے کہا کہ اس مرحلے میں 109 پنک بوتھ بنائے گئے ہیں جہاں پر 19 خاتون انسپکٹر یا سب انسپکٹر اور 259 کانسٹیبل یا ہیڈ کانسٹیبل تعینات کئے گئے ہیں۔

وہیں سینٹرل فورسز کی کمپنیاں بھی تعینات کی گئی ہیں جبکہ یوپی پولیس کے 6783 انسپکٹر اور سب انسپکٹر، 57 ہزار 550 کانسٹیبل یا ہیڈ کانسٹیبل کے ساتھ 17.1 کمپنیاں پی اے سی، 46 ہزار 236 ہوم گارڈز،1627 پی آر ڈی جوان اور 15 ہزار 4 چوکیدار الیکشن ڈیوٹی پر تعینات کئے گئے ہیں۔

سابقہ مراحل میں اپوزیشن جماعت بالخصوص سماج وادی پارٹی (ایس پی) سے سخت چیلنجز کا سامنا کرنے کے بعد حکمراں جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی(بی جے پی) کو امید ہے کہ پوروانچل خطے میں اسے اپنے حریف پر سبقت حاصل ہوگی۔

آخری تین مراحل میں اپنی سبقت کو قائم رکھنے کے لیے بی جے پی نے اس مرحلے میں سخت انتخابی مہم چلائی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، بی جے پی صدر جے پی نڈا، وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹی اپنا دل و نشاد پارٹی کے امیدواروں کی حمایت میں متعدد ریلیوں سے خطاب کیا۔

وہیں سماج وادی پارٹی(ایس پی)صدر اکھلیش یادو، کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا اور بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) سُپریمو مایاوتی نے بھی اپنے امیدواروں کی حمایت میں عوامی ریلیوں سے خطاب کیا۔

یہ مرحلہ سابقہ مرحلے سے زیادہ دلچسپ ہے۔ اسی مرحلے میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بذات خود گورکھپور صدر سیٹ سے انتخابی میدان میں ہیں۔ وہ پہلی بار اسمبلی انتخاب لڑرہے ہیں۔

ایس پی نے سابق بی جے پی ریاستی صدر اوپیندر شکلا کی بیوی شبھابتی شکلا کو انتخابی میدان میں اتار کر مقابلے کو کافی دلچسپ بنادیا ہے۔ وہیں آزاد سماج پارٹی کے صدر چندر شیکھر آزاد بھی یوگی کے خلاف انتخابی میدان میں ہیں۔

اس مرحلے میں یوگی آدتیہ ناتھ کابینہ کے 6 وزراء کا وقار داؤ پر ہے۔ وزیر زراعت سوریہ پرتاپ شاہی ضلع کشی نگر کی پتھر دیوا سیٹ سے انتخابی میدان میں ہیں، انہیں سابق وزیر و ایس پی امیدوار برہما شنکر ترپاٹھی سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ اسی طرح سے وزیر صحت جیے پرتاپ سنگھ کو ضلع سدھارتھ نگر کی بانسی اسمبلی سیٹ سے ایس پی امیدوار نوین و بی ایس پی کے ہری شنکر سے چیلنج درپیش ہے۔

وزیر تعلیم (آزادانہ انچارج) ستیش چندر دیویدی ضلع سدھاتھ نگر کی اٹوا سیٹ سے انتخابی میدان میں ہیں جہاں سے انہیں سابق اسمبلی اسپیکر و ایس پی لیڈر ماتا پرساد پانڈے سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ وہیں مملکتی وزراء میں سے اننت سوروپ شکلا بلیا کی بیریا سیٹ سے انتخابی میدان میں ہیں جبکہ جے پرکاش نشاد دیوریا کی رُدر پور سیٹ سے قسمت آزما رہے ہیں، انہیں کانگریس کے سابق ایم ایل اے و قومی ترجمان اکھلیش پرتاپ سنگھ سے سخت چیلنج مل رہا ہے۔وہیں شری رام چوہان کھجنی اسمبلی حلقے سے اپنی قسمت آزمارہے ہیں۔

اس مرحلے میں رائے دہندگان الیکشن سے عین قبل بی جے پی کو خیر آباد کہہ کر ایس پی میں شمولیت اختیار کرنے والے سابق کابینی وزیر سوامی پرساد موریہ کے بھی انتخابی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ سوامی پرساد موریہ ضلع کشی نگر کی اپنی روایتی سیٹ پڈرونہ چھوڑ کر فاضل نگر سے قسمت آزمارہے ہیں۔

سابقہ مرحلے کی طرح یہ مرحلہ بھی کانگریس کی وقار کی لڑائی ہے۔ اس کے ریاستی صدر اجے کمار للو ضلع کشی نگر کے تمکوہی راج اسمبلی حلقے سے انتخابی میدان میں ہیں جبکہ دیگر معروف چہروں میں گینگسٹر و مافیا ہری شنکر تیواری کے بیٹے ونئے شنکر تیواری گورکھپور کی چلو پار سیٹ سے ایس پی کے ٹکٹ پر انتخابی میدان میں ہیں۔ وہ بی ایس پی چھوڑ کر ایس پی میں شامل ہوئے ہیں۔

بی جے پی کے نائب ریاستی صدر دیا شنکر سنگھ بلیا کی صدر سیٹ سے سابق وزیر و ایس پی امیدوار ناراد رائے کے سامنے تال ٹھونک رہے ہیں۔ قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا جھیل رہے امر منی ترپاٹھی کے بیٹے امن منی ترپاٹھی بی ایس پی کے ٹکٹ پر مہاراج گنج کی نوتنواں سیٹ سے اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے میڈیا صلاح کار شلبھ منی ترپاٹھی دیوریا سیٹ سے انتخابی میدان میں ہیں۔

واضح رہے کہ سال 2017 کے اسمبلی انتخابات میں ان 57 سیٹوں میں سے 46 پر بی جے پی نے جیت درج کی تھی جبکہ بی ایس پی کو 4، ایس پی کو 3 اور کانگریس، اپنا دل اور سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی(ایس بی ایس پی) کو ایک ایک سیٹ ملی تھی جبکہ ایک سیٹ پر آزاد امیدوار نے جیت کا پرچم لہرایا تھا۔

سیاسی ماہرین کے مطابق اس مرحلے میں بی جے پی کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنی سابقہ کارکردگی کو برقرار رکھنا ہے۔ پارٹی بہتر حکمرانی اور ترقیاتی کاموں پر الیکشن لڑرہی ہے لیکن متعدد ایسے مسائل ہیں جو پارٹی کی توقعات پر پانی پھیر سکتے ہیں۔

اگرچہ حکمراں جماعت کے خلاف کوئی واضح ناراضگی نہیں ہے لیکن سیٹوں پر رائے دہندگان کسی نہ کسی وجہ سے بی جے پی امیدواروں سے ناخوش ہیں۔ علاوہ ازیں آوارہ مویشیوں کا مسئلہ بی جے پی کے سامنے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ وہیں ایس پی سربراہ انہی موضوعات کو اپنی انتخابی ریلیوں میں لگاتار اٹھارہے ہیں۔

تجزیہ نگاروں کے اعتبار سے اس خطے میں ذات پات کی صف بندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے بی ایس پی کو خارج کرنا کوئی دانشمندی نہ ہوگی۔ اس مرحلے کی متعدد سیٹوں پر دلت اور پسماندہ طبقات فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں اور ماضی میں یہ بی ایس پی کے لئے ذوق تر ذوق ووٹ کرتے رہے ہیں۔

یہ بات صحیح ہے کہ بی ایس پی نے سابقہ الیکشن میں بہتر مظاہرہ نہیں کیا تھا لیکن اس کا اس مرحلے میں اپنا کور ووٹ بینک ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details